Reality of Propaganda of PMLn against Judiciary

تحریر: عامر ہاشم خاکوانی

 کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں سپریم کورٹ پر ایک ہی بار فزیکل حملہ کیا گیا، جب ایک سیاسی جماعت کے سینکڑوں کارکنوں نے سپریم کورٹ پر ہلہ بول دیا اور چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کو بھاگ کر ریٹائرنگ روم میں پناہ لینا پڑی اور وہاں سے وہ بمشکل نکل پائے ورنہ ہجوم کے ہاتھ زخمی ہوجاتے ۔ 

  وہ جماعت مسلم لیگ ن ہے۔ یہ واقعہ انیس سو ستانوے کا ہے جب وزیراعظم نواز شریف تھے اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔ 

    کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ایک واقعہ ایسا ہے جب وزیراعظم کے خصوصی مشیر نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ایک اور جج کو فون کر کے کہا کہ وزیراعظم کے مخالف سیاستدان کو فوری سزا سنائی جائے۔ 

  وہ فون ٹیپ ہوگیا اور بعد میں منظر عام پر آنے پر ان دونون ججوں کو استعفا دینا پڑا۔ 

  جی اس واقعے میں بھی ن لیگ ملوث تھی۔ سیف الرحمن فون کرنے والا تھا جبکہ ملک قیوم اور ایک اور جج کو استعفا دینا پڑا تھا۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک پارٹی کے سربراہ کی اسمبلی توڑی گئی اور پھر بحال ہوئی اور پھر بحال کرنے والے ججوں کے بارے میں اس وقت کی اپوزیشن لیڈر جو ایک سابق وزیراعظم بھی تھیں، انہوں نے بیان دیا کہ (پیسے کی )چمک کام دکھا گئی۔ 

  جی وہ بھی ن لیگ کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔ وہ واحد ایسے خوش نصیب سیاستدان ہیں جن کی توڑی ہوئی اسمبلی بحال کی گئی۔ اسے جسٹس نسیم حسن شاہ نے بحال کیا تھا، جن پر ن لیگ کے طرفدار ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ کارروائی کر رہی تھی، اچانک ایسا جادو چلا کہ سپریم کورٹ منقسم ہوگئی اور بعد مین وہ مخالف چیف جسٹس ہی کو جانا پڑا۔ بعد میں کہا گیا کہ اس وزیراعظم کے اشارے میں ایک سابق جج بریف کیس لے کر کوئٹہ گئے اور جوڑ توڑ کیا۔ 

  کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سابق جج کو بعد میں حیران کن طور پر صدر مملکت بھی بنایا گیا۔ ان کا نام رفیق تارڑ تھا ، وہی جن کا نواسا عطا تارڑ آج کل ن لیگ کا کرتا دھرتا رہنما ہے۔ 

  جبکہ وہ وزیراعظم بھی نواز شریف تھا۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک سابق وزیراعظم کو صڑف پچاس روپے کے سٹامپ پیپر پر ایک خالی خولی یقین دہانی کے بعد باہر جانے دیا گیا اور وہ پچھلے ساڑھے تین برسوں سے واپس نہیں لوٹا۔  تب حکومت نے عدالت کو کہا تھا کہ اس سے چند ارب یا چلیں کروڑوں کا بانڈ بھروائیں، واپس نہیں آئے گا۔ عدالت نے ایسا نہ کیا اور وہ سابق وزیراعظم آج لندن میں بیٹھا مزے سے کافی پیتا ، آئس کریمیں کھاتا گھومتا پھرتا ہے اور ایک بار بھی اپنی اس نام نہاد پیچیدہ بیماری کے علاج کے لئے ہسپتال داخل نہین ہوا۔ 

 جی اس کا نام نواز شریف ہے۔ 

  کیا آپ جانتے ہیں کہ صرف دو ڈھائی سال پہلے ایک سابق وزیراعظم کے بھتیجے اور سابق وزیراعلیٰ کے بیٹے کی ضمانت ایک جج صاحب نے اتوار کے روز لے لی اور ہرگز یہ نہیں کہا کہ حفاظتی ضمانت کے لئے ملزم کو عدالت میں پیش ہونا ضروری ہے۔ 

  جی وہ ملزم حمزہ شہباز شریف تھا۔ ضمانت لینے والے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاسم خان تھے۔ وہی صاحب جو ن لیگ کے چہیتے رہے ۔ 

 کیا آپ جانتے ہیں کہ انہی جسٹس قاسم خان صاحب نے احتساب عدالت کے ریٹائر ہوجانے والے ججوں کی جگہ نئے جج تعینات نہ کئے، مہینوں تک وہ سیٹیں خالی رہیں، عدالت میں کیسز آگے نہ بڑھے اور پھر اسی بات کو بنیاد بنا کر ان ملزموں (جی وہ سب ن لیگی لیڈر تھے ) کی ضمانت لے لی کہ نیب ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی اور یہ کئی ماہ سے اسیر ہیں۔ نیب چیختی چلاتی رہی کہ ان ججوں کو آپ نے مقرر کرنا تھا، اگر نہیں کئے اور وہ عدالتیں خالی تھیں تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک سابق چیف جسٹس ایسا بھی تھا جس نے نوے کے عشرے میں ن لیگ سے کونسلر کا الیکشن لڑا۔ ن لیگ نے اسے ہائی کورٹ کا جج بنادیا اور وہ بعد میں خاصا عرصہ چیف جسٹس بھی رہا۔ ان کانام خواجہ شریف تھا۔ 

  جی صاحبو! یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں اور بے شمار واقعات موجود ہیں۔ اتنے کہ بہت سے لکھے نہیں جا سکتے، زبانی سنائے جا سکتے ہیں۔ بعض لکھتے لکھتے میں تھک جائوں گا۔ جس سابق چیف جسٹس نے اسمبلی بحال کی تھی، اس کا ایک حیران کن واقعہ ایسا ہے کہ لکھوں تو یقین نہیں آئے گا۔ چلیں رہنے دیتے ہیں۔ کبھی ملاقات ہوئی تو زبانی بتائوں گا۔ راوی اس کا ن لیگ کا نہایت سینئر اور معتبر حامی صحافی ہے۔

   آج جب مریم نواز شریف چیخ چیخ کر جلسوں میں جھوٹے الزامات لگاتیں اور صاف جھوٹ بولتی ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ 

  اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت 

  دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ  

والا شعر سنانے کو جی چاہتا ہے

Future of Imran Khan and Establishment - Fraz Naqvi

خان کبھی مقتدر حلقوں کی پہلی چوائس نہیں تھا!!

اگر نواز شریف 13 جولائی کو مریم نواز کے ساتھ لاہور نا آتا  تو شہباز شریف ہی 2018 میں  وزیراعظم ہوتا- وہی شہباز شریف جو ریلی کو لاہور کی گلیوں میں گھماتا رہا اور ائر پورٹ نہ پہنچا۔

نواز شریف کو جیل بھیجنا پڑا اور خان کو وزیراعظم کے طور پر لانا پڑا۔ تب بھی کوشش کی گئی کہ پنجاب ن لیگ کو دیا جائے مگر خان ڈٹ گیا کہ یہ نہیں تو وہ بھی نہیں!

وہ علیحدہ بات کہ آپس کی چپقلش میں ہمیں بزدار کا تحفہ ملا جو بالآخر وہ طوطا ثابت ہوا جس میں خان کی جان تھی اور پیرنی کا استخارہ ٹھیک نکلا کہ جب تک بزدار ہے تبھی تک خان بھی وزیراعظم ہے!

مقتدرہ نے خان کو فل سپورٹ کیا!

یہ کوئی معجزہ نہیں تھا، کیانی کی اسی پالیسی کا تسلسل تھا کہ جمہوری حکومت کے پیچھے کھڑے ہونا ہے جب تک وہ ریڈ لائن نہ کراس کرے۔ اسی پالیسی کے تحت اٹھارویں ترمیم بھی برداشت کر لی گئی اورآج بھی ڈی جی ببانگ دہل فرماتے ہیں کہ اس ملک میں کبھی مارشل لا نہیں لگے گا!

بہرحال خان آگیا، لیکن چل نہیں رہا تھا- گورننس نظر نہیں آرہی تھی، بزدار اور محمود جیسے کارٹون مسلط تھے۔ مہنگائی رک نہیں رہی تھی، معیشت ہلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اسد عمر اور اسکی سرجری کی پالیسی سے بزنس میں سے لے کر آئی ایم ایف تک سب پریشان تھے۔ مقتدرہ نے زور لگایا اور اپنا بندہ لے آئی لیکن حالات مشکل تھے۔

 کچھ مانگ تانگ کے معاملہ چلا تو کرونا آ گیا۔ خان کی نیت ٹھیک تھی لیکن سر پیر کوئی نہیں تھا۔ میڈیا کی دم پہ پاؤں رکھ دیا، اپوزیشن کو تننے کی کوشش کی، ٹیکس کے لئے بھی زور لگایا لیکن ہر طرف مافیا تھا، کمزور حکومت تھی، کہیں بلیک میل ہوتا، کہیں عزت بچاتا، کہیں یو ٹرن لیتا۔

خان ڈٹا رہا! مستقل مزاجی کے ساتھ لیکن مقتدرہ پر پریشر بڑھ رہا تھا۔ کوئی کہتا سر یہ کیا تبدیلی ہے، نہ گورننس ہے نہ کرپشن پہ کنٹرول۔ بزدار ہے اور فیصل واڈا، شہباز گل ہے اور شہزاد اکبر، خسرو بختیار ہے اور جہانگیر ترین کی شوگر ملز۔ میڈیا کی مس مینجمنٹ سے مسائل اور بھی زیادہ دکھتے تھے۔

پھر خان نے ابسولوٹلی ناٹ کہہ دیا تو میاں صاحب کی تو جیسے چاندی ہو گئی۔ میاں صاحب جن کا غیرت سے دور کا بھی واسطہ نہیں،  چار بار پکڑے گئے الحمدللہ چاروں بار جھکے، پیچھے ہٹے پھر بوٹ پالش کئے اور واپس آ گئے، ایک بار بھی بھٹو کی طرح غیرت نہیں دکھائی سو آج بھی زندہ ہیں اور اگلی باری کے امیدوار۔

مقتدرہ پہلے دن سے اپوزیشن کو سزاؤں اور امریکہ سے پنگے کے خلاف تھی۔ وہ سمجھتے تھے ملک کا وسیع تر مفاد اسی میں ہے۔ نواز شریف اور مریم کو ریلیف بھی اسی لئے ملا۔ خان کے لئے یہی دو اشوز ضروری تھے، اس کی پولیٹیکل ہسٹری انہی نعروں پر تھی، اس نے الیکشن ہی کرپشن پر لڑا تھا۔ مقتدرہ کا زور پرفارمنس پر تھا،  خان بات مانتا نہیں تھا۔

ابسولوٹلی ناٹ پر کسی کو اعتراض نہیں تھا، نعرے لگانے اور شور مچانے پر تھا۔ روس جانے پر سب آن بورڈ تھے لیکن یو این کی قرارداد میں ووٹ پہ اختلاف تھا۔ اور یہ شکوہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے کہ خان کے لئے وہ کام بھی کئے گئے جو باقی کسی کے لئے نہیں ہوئے۔ کارکے ہو یا ریکوڈیک، این سی او سی ہو یا لوکسٹ، الیکشن ہو یا کوئی بل، نمبر پورے کرنے ہوں یا کسی کو چپ کروانا، مقتدر حلقے ہمیشہ خان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔

مسئلے بڑھتے گئے کیونکہ خان کی پاپولیرٹی گرتی جا رہی تھی۔ بزدار سے پنجاب نہیں سنبھل رہا تھا، اتحادی خوش نہیں تھے لیکن مجبور تھے۔ پھر میاں صاحب نے نام لے کر گالیاں شروع کیں، مولانا نے چیخ چنگھاڑ میں حصہ ڈالا، امریکا بہادر نے بھی ناراضگی ظاہر کرنا شروع کر دی، میاں صاحب نے لندن کی دوائی کا فائدہ اٹھا کے ملنا جلنا شروع کیا۔ اور خان، اپنی سادگی میں، کبھی پرنس کو ناراض کرتا، کبھی کنگ کو، کبھی ترین کو اور کبھی علیم کو، کبھی اتحادیوں کو اور کبھی ان کو لانے والوں کو۔

اندر سے آوازیں بڑھنا شروع ہو گئیں کہ سر یہ تھا نیا پاکستان؟ یہ تھی تبدیلی؟ اوپر سے خان صاحب کی لیڈری کم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ کبھی رشین بلاک کی بات کرتا کبھی اگلے چیف کی۔ انہیں سمجھایا گیا کے سر، روس، چین نہیں ہے! ہم ایران نہیں ہیں نہ ہی انڈیا!۔ پہلے اپنا گھر ٹھیک کر لیں، لیکن خان کو کون سمجھا سکتا ہے!

جب مقتدرہ کو لگا کہ خان سمجھ نہیں سکتا، اچھے کام کا کریڈٹ خود لیتا ہے اور گالیاں ہم کھاتے ہیں تو انہوں نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جن بیساکھیوں پہ خان صاحب تھے، وہ کھینچ لیں اور کہا کے چار قدم خود چل کر دیکھیں۔ چلنا کیا تھا، خان صاحب کھڑے بھی نہ رہ سکے، دھڑام سے گرے۔ غرور اتنا تھا کے جھکے نہیں،اکڑ گئے۔ لیکن!!!

اور اسی لیکن کے بعد اصل بات ہے!!

لیکن ہوا یہ کہ کبے کو لات راس آگئی! خان کی سادگی، بے بسی، لڑنے اور ڈٹ جانے کی قوت، ٹھیک نیت اور کام کی لگن، باطل کے سامنے کھڑے ہونے کی سکت، انجام سے بے پرواہی، خلوص، انکار، للکار، خودداری، غیرت یا جو کچھ بھی تھا وہ عوام کو بھا گیا۔ اور عام عوام بھی نہیں،  پڑھی لکھی عوام، نوجوان، خواتین، بزرگ، گلی محلے والے، کوٹھیوں والے غرض ہر کوئی۔ اور اب؟

‏ اب جو کرتے ہیں الٹا پڑتا ہے۔ جو مرضی کرو، بات بنتی نہیں ہے!!

خان آج بھی مقتدر حلقوں کی چوائس نہیں ہے!

لیکن کیا مقتدرہ عوام کے خلاف جا سکتی ہے؟ کیا عوام کے وسیع تر مفاد میں مشرف سے جان چھڑوانے والے، عوام کی نبض پڑھنے والے جنکی اصل طاقت ہی عوام کی سپورٹ ہے، عوامی جذبات کے خلاف جا سکتے؟ اور اگر جائیں بھی تو آخر کب تک؟ کیا انہوں نے 6 ماہ کا سوچنا ہے صرف؟ نہیں حضور! بلکہ اس کے بعد کا!

 کیا ایک اپائنٹمنٹ تک محدود ہو چکے ہیں وہ؟ دل نہیں مانتا!

  کیا یہ 77 ہے؟ کیا خان بھٹو ہے؟ اور اگر ہو بھی تو، کیا کوئی ضیاء بننا چاہے گا؟ کیا پاکستان اسکا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستان، خان کو کھو سکتا ہے؟ کیا ملک کسی اور سانحے کا بوجھ سہہ سکتا ہے؟

   جی نہیں حضور!!! جی نہیں!!!

An Open Letter to General Bajwa sb

جنرل باجوہ صاحب

السلام علیکم سر!

امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ سر کہتے ہیں طاقت کا نشہ سب سے برا ہوتا ہے۔ یہ انسان کو سامنے کی بات بھی نہیں دیکھنے دیتا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ آپ دیکھ سکیں گے جو آپ کو دکھانے لگے ہیں۔ ‏سر پاکستان کی کل آبادی کا 65 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان نا تو Uninformed ہیں نا ہی کوئی Bots اور یہ Beggars بھی نہیں ہیں۔

‏سر یہ نوجوان ملک کا مستقبل ہیں اور آج آزمائے ہوئے چوروں اور لٹیروں کے پے رول پر موجود صحافی و دانشور انہیں فاشسٹ کہہ رہے ہیں، انہیں گالیاں دے رہے ہیں۔ کل جب ملک پر کوئی مشکل وقت ہو گا تو یہ صحافی نہیں بلکہ یہ نوجوان پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

‏سر یہ ملک، یہ فوج، یہ معیشت جس تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس پر چلتی ہے، جن کے فارن ایکسچینج پر چلتی ہے وہ سب دن دہاڑے اور رات گئے اپنے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈلتے دیکھ کر شدید مضطرب ہیں۔ معاملات اس مقام پر نا جانے دیں جہاں یہ سسٹم سے مایوس ہو جائیں۔ ‏سر خدانخواسطہ اگر یہ نوجوان سسٹم سے مایوس ہو گئے تو خاکم بدہن آپ اس سے پہلے ملک کو پیش آنے والے تمام چیلنجز کو بھول جائیں گے۔ ماضی کے تمام مسائل اور مصائب چھوٹے لگنے لگیں گے۔ اگر آپ پاکستان اور فوج سے محبت کرتے ہیں جو میرا خیال ہے آپ کرتے ہیں تو بڑھیں اور معاملات سنبھالیں۔

‏ہم ہرگز یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ عمران خان کو اقتدار میں لے آئیں۔ یہ فیصلہ عوام ہی کریں گے۔ ہم صرف یہ عرض کر رہے ہیں کہ اس قوم کے اجتماعی شور کی توہین نا کی جائے رات گئے عدالتیں کھول کر، ہمارے وزیراعظم کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اور ضمیرفروشی کر کے۔ ‏سر یہ دیکھنے کے لیے کوئی آئین سٹائن ہونا ضروری نہیں کہ تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے پر کیسے عدلیہ ایکٹو ہوئی اور فلور کراسنگ پر ٹال مٹول سے کام لیتی رہی تا کہ حکومت گر سکے۔ الیکشن کمیشن کیسے صرف تحریک انصاف کی فنڈنگ کے پیچھے پڑا ہے ہمیں نظر آ رہا ہے۔

‏جناب ایک ہوٹل میں ایک بزرگ شہری کو مار پیٹ کر بکاؤ صحافیوں کے ہاتھ اسے "یوتھیا" کہا گیا۔ پھر پاک فوج کے ایک سرونگ میجر کو مار مار کر اس کا بازو توڑ دیا گیا۔ جناب عوام کے آپ سے دور ہونے کی دیر ہے، یہ کرپٹ سیاستدان آپ کو پنجاب پولیس بنانے میں دیر نہیں کریں گے!

‏اللہ کے بعد اس ملک میں ہر طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ فوج جتنی مرضی طاقتور ہو اگر عوام اس کے ساتھ نا ہوں تو وہ طاقتور نہیں رہتی۔ سر زرا سوچیں کہ جس قوم اور فوج نے مارشل لا بھگتے، بھٹو کی پھانسی بھگتی، آج اس کے جوان اور فوجی یکساں پریشان اور بے چین کیوں ہیں؟ ‏ہمیں اپنی فوج کے ڈسپلن اور یونٹی آف کمانڈ پر ناز ہے۔ خدا کا واسطہ ہے کہ یہ ناز قائم رہنے دیں۔ بلوچستان، فاٹا وغیرہ میں پہلے ہی حالات ٹھیک نہیں ہیں، ہم اچھے بھلے بنے بنائے ملک کو تباہ کرنے پر کیوں تلے ہیں؟

‏ہم عام پاکستانی یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہماری عدلیہ اور ہماری فوج حالات کی سنگینی کا اندازہ لگا کے وہی کرے گی جو کسی بھی محب وطن پاکستانی کو کرنا چاہیے۔ فوری اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد! اس کے سوا جو کچھ بھی آپ کریں گے وہ محض مزید نقصان کے بعد پھر الیکشن پر ہی منتج ہو گا۔

‏پاکستان اور پاک فوج دونوں ہمارا غرور تھے اور ہیں۔ براہ مہربانی اس ملک کی روح، اس ملک کے نوجوان کا جذبہ اور امید قتل نا ہونے دیں۔ پاکستان زندہ باد

نصرت الٰہی۔ فراز نقوی

‏خدا کی قسم یہ نصرت الٰہی نہیں تو اور کیا ہے!!!

اس ایک شخص کو سب مل کے گرانے چلے تھے، تیاری پوری تھی، شکنجہ بھی کس لیا تھا۔ مقتدر حلقے بھی زچ تھے، بڑا گھر بھی آن بورڈ تھا، باہر سے بھی آشیرباد حاصل تھی، سروے چیخ چیخ کے غیر مقبولیت کا پتہ دے رہے تھے۔ کوئی کہتا بزدار کیوں لگایا!! 

‏کوئی کہتا جہانگیر کو علیم کو ناراض کر دیا، کوئی کہتا فیض پہ ضد کی، اب اسکی خیر نہیں۔

کوئی ڈالر، تیل، مہنگائی، بجلی کی دہائی دیتا۔

وہ ان سب سے بے پروا!

 ازل کا سادہ درویش!

 لگا رہا اپنے کام میں۔

 کہیں لنگر خانے کھولتا کہیں پناہگاہ۔ کبھی کرونا سے لڑتا کبھی لاک ڈاؤن کے خلاف۔

‏کبھی تیل پہ ٹیکس ختم کرتا، کبھی بجلی پہ، کبھی صحت کارڈ دیتا کبھی احساس کیش، کہ غریب کا چولہا جلتا رہے۔ 

کبھی IMF جاتا!

 کبھی عربوں کے در جھکتا! 

کبھی ٹیکسٹائل کو پیکج دیتا کبھی کنسٹرکشن کو، کہ پہیہ چلتا رہے۔ ایکسپورٹس کی بات کرتا،

 کبھی ٹیکس کولیکشن کی،

 کبھی خودداری کی بات کرتا، ‏

کبھی خود انحصاری کی۔ 

قوم کی تربیت کرتا کہ کرپشن سے جان چھڑا لو! اپنے ملک کا سوچو!

 ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہ ملک عظیم بنے گا، میری قوم عظیم ہے! 


کیسا کیسا وقت آیا اور وہ ڈٹ گیا، جہاز آئے تو ملک کے لئے ڈٹ کے کھڑا ہو گیا، کہتا تھا! جواب دینے کا سوچوں گا نہیں، جواب دوں گا!

 اور دیا!

‏اور ایسا دیا کہ چشم فلک نے ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔

 اس قوم نے ایسا عروج نہیں دیکھا تھا۔

 دشمن، طیارے، پائلٹ!

 سب الٹ پلٹ دیئے۔ فوج کو بھی فخر ہوا کہ کوئی ہے جو ڈٹ سکتا ہے۔ 

پھر امریکہ آیا! افغانستان سے نکلتے ہوئے، ہاری ہوئی جنگ کا ملبہ ہم پہ ڈالتے،

 اڈوں کا متمنی کہ جنگ جاری رکھے۔‏ڈٹ گیا! کہتا نہیں دوں گا! 

ایسا جواب، امریکہ کو؟ 

جس نے بھی دیا، قتل ہوا یا اپنوں کے ہاتھوں پھانسی!

 لیکن وہ ڈٹ گیا، نتائج سے بے پرواہ!

محمد کا دیوانہ، مدینہ ننگے پاؤں جانے والا، حرمت رسول پہ پوری دنیا سے ٹکر لینے والا، اسلاموفوبیا سے لڑنے والا۔ ڈٹ گیا!!

 سمجھا کہ قوم میرے ساتھ ہے!

‏وہ سمجھا فوج میرے ساتھ ہے! سادہ اتنا کہ اگست 21 میں چیف کو کہہ دیا کہ اگلا چیف فلاں کو بنائیں گے۔ وہ تو مل کے ملک ٹھیک کر رہا تھا!

جانتا نہیں تھا کہ سب اس کی طرح مخلص نہیں ہیں۔ لوگوں کے اپنے مفادات ہیں، اپنے مسائل ہیں۔ پریشر آتا ہے تو سب اسکی طرح 'ابسولوٹلی ناٹ' نہیں کہہ سکتے۔ ‏

سازش ہوتے دیکھتا رہا، کہتا رہا کہ سازش ہو رہی ہے۔ ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ اسپیکر کو کہا، اپوزیشن کو کہا، سپریم کورٹ کو کہا، نیشنل سیکیورٹی کونسل کو کہا، کسی نے نہیں سنا تو عوام کو کہا۔ 

کسی نے مذاق اڑایا، کسی نے دھمکی دی، عدالتیں کھل گئیں، گدھ اکٹھے ہو گئے، بے بس ہو گیا، گھر گیا۔

‏ہر طرف سے گھر گیا، کوئی قانونی راستہ نہ بچا تو اٹھا، پوچھا:

 "کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہوا ہو؟"

اپنی کل متاع، ایک ڈائری اٹھائی، اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا بنی گالہ چلا گیا۔

چلا گیاا لیکن ایسی جوت جگا گیا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی، ایسی آگ لگا گیا تن میں جو بجھ نہیں رہی۔ ‏

پھر میرے رب نے دن پھیر دیئے، دل پھیر دیئے!

سازشی اکٹھے تھے، پلان مضبوط تھا، عہدے بٹے ہوئے تھے، فیصلے ہو چکے تھے۔ لیکن رب کی منظوری نہیں تھی!

 ایسی کایا پلٹی کہ سوئی ہوئی قوم جاگ گئی۔

جو کبھی نہیں جاگی تھی، ماڈل ٹاؤن ہو یا 71، اے پی ایس ہو یا بھٹو کی پھانسی، جو کبھی نہیں جاگی!

‏نجانے اب کیسے جاگ گئی؟


اب جو کرتے ہیں الٹا پڑتا ہے!

 تیل بڑھاؤ یا کم کرو، ڈالر اوپر یا نیچے کرو، مہنگائی کم یا زیادہ کرو، جسے بھی وزارت دو، جو عہدہ بھی جسے دو، حلف میں شرکت کرو یا نہیں، ملو یا نہیں، سیلوٹ کرو یا نہیں، ساری پارٹیاں اکٹھی کر لی، سارا میڈیا خرید لیا، ڈالر بھی لے آئے۔ 

‏مبارکباد کے پیغامات بھی آ گئے، دوروں کی دعوتیں بھی، پراجیکٹ بھی، 

لیکن! جو مرضی کرو، بات بنتی نہیں ہے،

عوام کو جچتی نہیں ہے، ٹرینڈ نیچے نہیں آ رہے، عوام گھر نہیں بیٹھ رہی، افسر بات نہیں سن رہے، ریٹائرڈ بھی چپ نہیں کر رہے، سمجھ نہیں آرہی یہ کیا ہے؟

 یہ نصرت الٰہی نہیں تو اور کیا ہے!!

On Uniform Education System یکساں نظام تعلیم

On Uniform Education System and Medium of Instruction

This is perhaps my first article which I'm writing in both English and Urdu simultaneously. The reason for that is simple: Those who matter hardly read Urdu and those affected rarely understand English. So, I want to take a chance to be read by both sections.

First a brief background because most of you might not know me. I've been teaching for past 15 years in public sector in Pakistan. My specialization is engineering and technology. Here is what my thinking was in the starting years of my career: "English is extremely important. I must teach in English as much as possible. It will benefit my students".

Then, I happened to win a scholarship for higher studies from a top European university (Not from HEC but from the respective European country). Their first language was not English but thankfully post graduate education was in English for international students. There, I learned many lessons and now my opinion is:
"One simply can't innovate or do top quality research (at least not at one's full potential) unless done in one's native language".

Ever since I returned, I speak more Urdu during my lectures despite being more conversant in English than earlier. And it has benefited my students immensely. The background for this paradigm shift is rather unlikely and strange: It is not because French teach in French, Germans teach in German, Chinese teach in Chinese or Italian teach in Italian. It is because of my observation of Iranian students. They were PhD students who did their 18 years education (MS or MPhil) in Persian and then came to my university for PhD in English. They were not only on an average better than average Pakistanis in mathematics, but their English language skills were also superior.

It was a very paradoxical situation initially. On one hand, you've Pakistani students most of which had studied most of their subjects in English throughout their lives. On the other hand, we had Iranians who didn't study with English as medium of instructions. Okay, I could blame our primitive teaching techniques for a weaker base in science. But at least in English skills, we were supposed to be better than them! Even that was not the case. 

So, I started discussions with Iranian students. They basically had two advantages which we Pakistanis didn't have.

1. Uniform Education in their lingua franca
2. Study of English as a subject from competent teachers rather than "Englishization" of all courses. Mostly they studied English for hardly 6 months prior to their admissions abroad and they were also quick to learn the new languages

It gave them firm grasp of their subjects with acceptable (still better than us) English language skills. And please! DO NOT TAKE ME WRONG. I'm not advocating for unnatural and odd translation of everything. For example, I'm not saying to do the following kind of translation:
English: This is a speaker
اردو: یہ ایک آلہ مکبر صوت ہے 
I'm actually advocating this kind of translation
اردو: یہ ایک سپیکر ہے
Or
یہ ایک speaker ہے
Similarly, I'm not suggesting this kind of translation
English: Reflection and refraction are two primary modes of the way light interacts with materials
اردو:  روشنی انعکاس اور انجذاب کی صورت میں چیزوں کے ساتھ تعامل کر سکتی ہے
I'll rather prefer a translation like this:
روشنی جب چیزوں پر پڑتی ہے تو اس سے reflection بھی ہو سکتی ہے اور refraction بھی

You could say that I'm neither with the school of thought which supports absolute "Englishization" nor am in agreement with the "Urdu puritans" who are adamant on translating everything. Using the mid way approach as I explained above, we may get the best of both worlds: Students with sound understanding and not disconnected from the relevant English scientific terms. 

Another aspect on which we must focus is not only a uniform curriculum but also a uniform system of examination, uniform minimum teacher qualifications, trainings, and mode of teaching. To achieve that we will have to make practical compromises: We will have to add a little more religious content in the schools, a little more scientific content in the madaris, a little more foreign content in Matriculation / FSc systems and a little more local content in O levels / A level system. Similarly, local languages / cultures must also get due share in the content. Only then such a system will be accepted by all. But it will be equally likely that such a system will also be rejected by all because it will not share or reflect thinking from just one school of thought. (Actually, today it is also a litmus test. If on any step of yours, you're accused of following a 'yahoodi agenda' by religious fanatics or being too religious by secular extremists, you're most probably on the right track).

I agree with Prof Hoodbhoy on so many things like the flaws in the HEC policies, monetization of education and research, Tenure track system in its current form (I never opted for it despite strong financial and societal temptations), I also agree with him that too much of religious content in a professional degree will not be ideal but do we live in an ideal world or country? No, we do not. And that's why our approach to issues should be more pragmatic and realistic. Uniform curriculum is a good beginning. Once everyone's stakes are increased in a uniform curriculum, it will automatically be evolved towards a more rational and practical form. It is at least a good beginning. Let it go on.

If my last argument didn't appeal you yet, I'll quote my favourite example. Let us imagine a town in Pakistan is deadly against female education but they might accept education of boys. What should we do in this situation? You've basically two options:

1. Cry foul. Refuse to start school there unless they agree to educate girls as well. Advocate a military solution against defaulters in the extreme case
2. Let the boys be educated peacefully and happily knowing that tomorrow these very boys will be advocating for education of their sisters and daughters. And it will be hard to resist their voices

What would you choose? I'm deadly against the former and fully in the favour of the latter! And I believe that our approach to every issue should be pragmatic and realistic. Please never forget that "change is a process not an event" and every process takes some time. Thank you for reading.

Note: The Urdu translation follows below

یکساں نظام تعلیم، نصاب تعلیم اور زبان تعلیم پر

یہ شائد میرا پہلا مضمون ہے جو میں انگلش اور اردو دونوں میں لکھ رہا ہوں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے: جو لوگ ہمارے معاشرے میں اہمیت رکھتے ہیں وہ شائد ہی اردو پڑھتے ہوں اور جو ان چیزوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں وہ بہت کم انگریزی سمجھتے ہیں۔ اس لئے میں یہ کوشش کر رہا ہوں کہ دونوں طبقات میری عرض پڑھ اور سمجھ سکیں۔

پہلے میرا مختصر سا پاس منظر کیونکہ آپ میں سے اکثریت مجھے جانتی نہیں ہو گی۔ میں پچھلے پندرہ سال سے انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں پبلک سیکٹر میں پڑھا رہا ہوں۔ جب میں نے پڑھانا شروع کیا تو میری سوچ کچھ یوں تھی:
"انگلش بہت اہم زبان ہے۔ مجھے صرف انگلش میں پڑھانا چاہئے اس کا میرے طلبہ کو بہت فائدہ ہو گا"
پھر مجھے اعلی تعلیم کے لئے ایک ٹاپ یورپین یونیورسٹی کا سکالر شپ ملا (جو ایچ ای سی کا نہیں تھا بلکہ وہیں یورپ کا تھا)۔ اس ملک میں لوگوں کی مادری زبان انگلش نہیں تھی۔ لیکن اچھی بات یہ تھی کہ انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کے لئے پوسٹ گریجویٹ تعلیم انگلش میں تھی۔ وہاں میں نے بہت کچھ سیکھا اور اب میری رائے کچھ یوں ہے:
"کوئی بھی شخص اپنی مادری زبان کے سوا کسی اور زبان میں (کم از کم اپنے پورے پوٹینشل کے مطابق نہیں) ٹاپ ریسرچ یا ایجادات نہیں کر سکتا"۔

جب سے میں واپس آیا ہوں، اب میں اپنے لیکچرز میں اردو کا استعمال زیادہ کرتا ہوں اگرچہ میری انگریزی کی استعداد پہلے سے بہتر ہو چکی ہے۔ اور اس کا میرے طلبہ کو بہت فائدہ بھی ہوا ہے۔ میرے نکتہ نظر میں اس تبدیلی کا پس منظر بھی تھوڑا سا عجیب ہے۔

اس تبدیلی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ فرانس اپنے بچوں کو فرنچ میں، جرمنی جرمن میں، چین چینی میں اور اٹلی اطالوی زبان میں دے کر بھی ترقی کر رہے ہیں بلکہ اس کی وجہ ایرانی طلبہ پر کئے گئے میرے کچھ مشاہدات تھے۔ وہ پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ تھے جن کی پہلے 18 سال (ماسٹرز یا ایم فل تک) کی تمام تر تعلیم فارسی میں ہوئی تھی اور پھر وہ میری یونیورسٹی میں آئے۔ نا صرف یہ کہ انجینئرنگ یا ریاضی مضامین میں وہ ہم پاکستانیوں سے بہتر تھے بلکہ کچھ ہی عرصے میں ان کی انگلش بھی ہم سے اچھی ہو گئی۔ 

میرے لئے یہ بہت ہی تضاد سے بھرپور اور ستم ظریفانہ قسم کی صورتحال تھی۔ ایک طرف پاکستانی سٹوڈنٹس تھے جنہوں نے (اردو میڈیم میں بھی) میٹرک کے بعد تمام مضامین انگلش میں پڑھے تھے۔ دوسری طرف ایرانی تھے جنہوں نے سب کچھ فارسی میں پڑھا تھا۔ چلیں میں پاکستان کی بری تعلیم کی تکنیک کو الزام دے سکتا تھا ہمارے انجینئرنگ میں کم علم کے لئے لیکن کم از کم انگلش صلاحیت تو ہماری ان سے بہتر ہونی چاہئے تھی نا! لیکن وہ بھی نہیں تھی۔ 

اس لئے میں نے ایرانی طلبہ سے گفتگو شروع کی تو مجھے پتا چلا کہ انہیں دو ایسے فوائد حاصل تھے جو ہم پاکستانیوں کے پاس نہیں تھے
1۔ اپنی مادری زبان میں یکساں تعلیم
2۔ انگریزی کو بطور ایک سبجیکٹ (مضمون) پڑھنا بجائے اس کے کہ پورے کورس کو "مشرف بہ انگریزی" کر دیا جاتا۔ وہ داخلے سے محض چھ ماہ پہلے انگریزی پڑھتے تھے لیکن اچھے سے اور اچھے نظام کے تحت پڑھتے تھے

اس سے انہیں اپنے مضمون پر بھی اچھی گرفت حاصل ہوتی تھی اور قابل قبول (لیکن ہم سے بہتر) انگریزی پر دسترس بھی۔ اور پلیز میری بات کا غلط مطلب مت سمجھئے گا۔ میں ہر چیز کا غیر فطری اور زبردستی کا ترجمہ ہرگز نہیں چاہتا۔ مثلا میں یہ نہیں کہہ رہا کہ
This is a speaker
کو اردو میں کچھ یوں لکھا جائے
یہ آلہ مکبر صوت ہے
بلکہ میں اسے اردو میں کچھ یوں لکھوں گا
یہ سپیکر ہے یا
یہ speaker ہے
اسی طرح میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ
Reflection and refraction are the two primary modes of the way light interacts with materials
کا ترجمہ کچھ یوں کیا جائے
"روشنی انعکاس اور انجذاب کی صورت میں چیزوں کے ساتھ تعامل کرتی ہے"
بلکہ میں اس کا ترجمہ کچھ یوں کروں گا
"جب روشنی چیزوں پر پڑتی ہے تو اس سے reflection بھی ہو سکتی ہے اور refraction بھی"

سو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں نا تو ہر چیز کو "مشرف بہ انگریزی"کرنے کے حق میں ہوں اور نا ہی ہر چیز کو اردو میں ڈھال دینے کے۔ یہ طریقہ کار اختیار کرنے سے ہمارے طلبہ کی مضمون کی سمجھ بھی بہتر ہو گی اور ساتھ ساتھ وہ انگریزی اصطلاحات سے اجنبی بھی نہیں رہیں گے اور ہمیں دونوں اطراف کے بہترین فوائد حاصل ہو جائیں گے۔ 

ایک اور چیز جس پر ہمیں فوکس کرنا چاہیے وہ محض یکساں نصاب نہیں بلکہ یکساں نظام امتحان، یکساں ٹیچر کوالیفکیشن، ٹریننگ اور پڑھانے کا طریقہ کار بھی ہے۔ یہ سب حاصل کرنے کے لئے ہمیں کچھ عملی سمجھوتے کرنے پڑیں گے۔ 

ہمیں سکولوں میں تھوڑا زیادہ مذہبی مواد، مدرسوں میں تھوڑا زیادہ سائنسی مواد، میٹرک ایف ایس سی میں تھوڑا زیادہ بیرونی مواد جبکہ لیولز میں تھوڑا زیادہ علاقائی مواد ڈالنا پڑے گا تب ہی تو یہ سب کے لئے قابل قبول ہو گا۔ اس کا سائیڈ افیکٹ یہ ہے کہ ہر شعبے کے لوگ اسے مسترد بھی کر سکتے ہیں (خصوصا انتہا پسند چاہے وہ سیکولر ہوں یا مذہبی) کیونکہ ایسا نظام ان میں سے کسی کی بھی سوچ کا مکمل ترجمان نہیں ہو گا (ویسے یہ لٹمس ٹیسٹ بھی ہے۔ اگر آپ کوئی ایسی بات کریں جس پر مذہبی انتہا پسند آپ کو دین کے خلاف سازش کا الزام دیں جبکہ سیکولر انتہا پسند آپ پر ضرورت سے زیادہ مسلمانی کا الزام لگائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ تقریبا درست راہ پر ہی ہیں)

میں پروفیسر ہود بھائی سے بہت سی باتوں پر اتفاق کرتا ہوں، جیسے ایچ ای سی کی پالیسیوں پر، تعلیم اور ریسرچ کو پیسوں سے متعلق کرنے پر، اپنی موجودہ شکل میں پاکستانی ٹینور ٹریک سسٹم پر وغیرہ (جسے میں نے خود کبھی اختیار نہیں کیا کافی معاشی اور معاشرتی لالچ کے باوجود)، میں ان کی اس بات سے بھی متفق ہوں کہ ایک پروفیشنل ڈگری میں بہت زیادہ مذہبی مواد مثالی صورتحال کی عکاسی نہیں کرے گا لیکن کیا ہم ایک مثالی دنیا میں رہتے ہیں؟ ہرگز نہیں! اور اسی لئے ہماری اپروچ زیادہ عملی اور حقیقت پسند ہونی چاہئے۔ یکساں نصاب کم از کم ایک اچھا آغاز ہے، جب پورا ملک ایک ہی نظام یا نصاب میں سٹیک ہولڈر بنے گا تو وہ خود بخود ایک ارتقائی عمل سے گزر کے مزید بہتر ہوتا چلا جائے گا وقت کے ساتھ ساتھ۔ اس لئے کم از کم اس کا آغاز ہونے دیں، بہتری آتی جائے گی۔

اگر میرا آخری نکتہ آپ کو زیادہ اپیل نہیں کر پایا تو یہ لیں میری پسندیدہ ایک اور مثال پیش ہےفرض کر لیں پاکستان کا ایک شہر ہے جہاں کے لوگ لڑکوں کی تعلیم پر پھر تیار ہو جائیں گے لیکن وہ بچیوں کی تعلیم کے شدید خلاف ہیں۔ تو آپ کے پاس بنیادی طور پر دو ہی راستے ہیں

ایک۔ شور مچانا شروع کر دیں، سکول کھولنے سے انکار کر دیں جب تک کہ لوگ بچیوں کی تعلیم کے لئے بھی تیار نا ہو جائیں یا انتہائی صورتحال میں وہاں کے لوگوں کو تعلیم کی اہمیت بتانے کے لئے فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا جائے
دو۔ مقامی آبادی سے کہیں ٹھیک ہے ہم بچیوں کے نہیں محض بچوں کے سکول کھول دیتے ہیں تو کچھ عرصے بعد وہی بچے شعور ملنے کے بعد خود اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی تعلیم کے لئے آواز اٹھا رہے ہوں گے، اور بغیر کسی لڑائی کے سب کو تعلیم ملنا شروع ہو جائے گی۔

آپ کونسا طریقہ کار پسند کریں گے؟ کم از کم میں تو مؤخر الذکر پسند کروں گا کیونکہ تبدیلی ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک عمل ہے اور عمل ہمیشہ وقت لیتا ہے! شکریہ مجھے اتنے صبر کے ساتھ پڑھنے کے لئے۔

جسٹس قاضی فائز کے بارے میں - About Justice Faiz Qazi

جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کے بارے میں چند پیشگی معروضات

مجھے یاد ہے افتخار چوہدری صاحب"عدلیہ کی آزادی"کی مہم کی قیادت کر رہے تھے اور اعتزاز احسن"ریاست ہو گی ماں کے جیسے" گا رہے تھے، فدوی تب عرض کر رہا تھا کہ یہ ایک غلط آدمی ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ فدوی کی وہ رائے درست تھی اگرچہ دلی ہمدردیاں اس تحریک میں میری بھی ججز کے ساتھ تھیں۔ مشرف کو میں تب بھی غاصب سمجھتا تھا۔ لیکن افتخار چوہدری کا رویہ اور طریقہ کار سائرن بجاتا رہتا تھا۔ خیر بعد میں پورے پاکستان نے دیکھا کہ وہ کیسا المناک سراب ثابت ہوئے، آج جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کے بارے میں بھی میرے لئے نہایت محترم شخصیات نہایت مثبت آراء رکھتی ہیں اور میری ذاتی خواہش ہے کہ میں ان سے اتفاق کروں لیکن مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ایسا کرنے سے خود کو معذور پاتا ہوں:

ایک- جج صاحب کی اپیل کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل (چاہے وہ انسانیت کی ارزل ترین شکل پر ہی کیوں نا ہو) پر ان کے ذاتی اور جذباتی حملے ان کے عہدے اور مقام کے شایان شان نہیں تھے

دو- انٹرنیٹ سے کسی شخص کی مبینہ جائداد کا تقابل اپنی تسلیم شدہ جائداد سے کرنا ہرگز کوئی منطقی و مسکت قانونی رویہ نہیں تھا

تین- قانون میں میرے لئے ایک طرح سے استاد کی حیثیت رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صاحب کی جسٹس صاحب کے بارے میں انتہائی مثبت رائے رکھنے کے باوجود میرے لئے آج بھی یہ ہضم کرنا مشکل ہے کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ میرٹ پر تھا یا اس میں نواز شریف خاندان کو بے انتہا ناجائز قانونی فائدہ نہیں پہنچایا گیا

چار- افتخار چوہدری صاحب کی ذاتی درخواست پر ان کا جج بننا میری ناقص رائے میں ان کا کوئی میرٹ نہیں بلکہ ڈی میرٹ ہے

پانچ- میں یہ بھی نہیں کہتا کہ جج صاحب چور ہیں یا کرپٹ ہیں۔ میرے خیال میں یہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس بچانے کا کیس نکلے گا (جو قانون کی نظر میں جرم ہی ہے لیکن پاکستان کے کاروباری طبقے میں اسے عام روٹین سمجھا جاتا ہے)۔ اور شائد اسی وجہ سے جسٹس صاحب نے حدیبیہ و دوسرے کیسز میں وہ تمام کمنٹس دیئے جو بعد میں ان کے کیس کے ساتھ بھی خاصی حد تک مطابقت رکھتے تھے

چھ- جج صاحب کا ایک اور ذہنی و نفسیاتی رویہ خبط عظمت میں مبتلا ہونے کا ہے۔ یہ رویہ میں نے آج تک جس میں بھی دیکھا ہے وہ کوئی مثبت شخصیت نہیں نکلی۔ چاہے وہ وقاص گورایا ہو یا سلمان حیدر یا ماروی سرمد یا گل بخاری یا افتخار چوہدری یا جسٹس شوکت صدیقی وغیرہ وغیرہ۔ قاضی صاحب کا رویہ، عمل اور طرز عمل سب نہایت جذباتی اور مخاصمانہ رہے ہیں۔ کل ہو سکتا ہے وہ چیف جسٹس بھی بنیں تو ایسے رویے کے اظہار کے ساتھ وہ اپنی منصفی کے تقاضوں پر پورا اتر سکیں گے؟ فدوی بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں پاتا ہے

سات- جج صاحب یا ان کی اہلیہ محترمہ دونوں نے جذباتی بیانات تو خوب دیے ہیں مگر سات لاکھ پاؤنڈ ایک خطیر رقم ہے۔ یہ گلے یا گُجے یا گھڑے میں نہیں جوڑی گئی ہو گی۔ جج صاحب کی اہلیہ خود کہہ چکی ہیں کہ وہ میرے اپنے وسائل سے حاصل کردہ رقم تھی۔ مطلب جج صاحب کی لا فرم کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اور بیگم صاحبہ کا کوئی کاروبار نہیں تھا۔ تو لازمی یہ رقم کسی فائنانشل ٹرانزیکشن کے نتیجے میں آئی ہو گی۔ بیگم صاحبہ نے تمام دستاویزات دکھا دیں یہی ایک دستاویز نہیں دکھائی۔ اشارتاً بھی اس کے بارے میں بات نہیں کی۔ حالانکہ پورے کیس کی جڑ ہی ان منی ٹرانزیکشنس کی منی ٹریل ہے اور تو کیس کچھ ہے ہی نہیں

آخری بات یہ ہے کہ جج صاحب کے فوج کے خلاف کھڑے ہونے پر انہیں کھڑے ہو کر سات سرخ سلام۔ اگر وہ واضح اور صاف منی ٹریل بھی پیش کر دیں جذباتی ڈائیلاگز کی بجائے تو پوری قوم انہیں چودہ سرخ سلام پیش کرے گی۔ بصورت دیگر ایک اور افتخار چوہدری اس بدقسمت قوم کی زندگی میں آنے والا ہے- پیشگی لکھ کے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا تا کہ مستقبل میں اپنے محترم دوستوں کو اس کا حوالہ دیا جا سکے جیسے آج بھی افتخار چوہدری کے بارے میں میری آراء اپنے کالج کی المنائی کے یاہو گروپ پر موجود ہیں جو فدوی نے 2007-8 میں دی تھیں


MQM and PTI

ایم کیو ایم اور تحریک انصاف

میرے ایک دوست نے مندرجہ ذیل نکتے اٹھائے ہیں، پلیز کوئی بھائی مجھے ان کا نکتہ وار جواب دیں تا کہ میں اس کے منہ پر مار سکوں- وہ ہر وقت کوشش کرتا رہتا ہے نون لیگ اور باقی جماعتوں کو غلط اور صرف تحریک انصاف کو درست ثابت کرنے کی، شکریہ

ان لوگوں کے لئے جو ایم کیو ایم کی ہڑتالوں کا تحریک انصاف کی ہڑتالوں سے تقابل کر رہے ہیں

- ایم کیو ایم نے کتنی بار ہڑتال کرنے سے پہلے ڈیڑھ سال تک عدالتی نظام سے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی؟

- ایم کیو ایم نے ہڑتال کرنے سے پہلے کتنی بار انصاف کی تلاش میں سو دن کا دھرنا دیا ہے؟

- ایم کیو ایم نے ہڑتال کرنے سے پہلے کتنی بار ملکی سطح پر تقریبا ہر چھوٹے بڑے شہر میں تاریخ کے سب سے بڑے جلسے کیئے ہیں انصاف کے لئے؟

- ایم کیو ایم کے قائد نے کتنی بار عوام سے محض "ایک دن" کے کچھ گھنٹوں کی ہڑتال کے لئے معذرت کی ہے؟

- ایم کیو ایم کی ہڑتال آج تک کتنی بار بغیر کسی قتل و غارت اور لاشیں گراۓ بغیر سو فیصد پرامن انداز میں ختم ہوئی ہے؟

- ایم کیو ایم نے آج تک کتنی بار دھاندلی جیسے قومی مسلے پر ہڑتال کی ہے؟

- یاد رہے دھاندلی تحریک انصاف کا ایشو نہیں پاکستان کا ایشو ہے- جمہوریت میں لٹیروں کو سزا دینے کا واحد پرامن طریقہ الیکشن ہیں اور اگر وہی صاف و شفاف نا ہوں تو جمہوریت ختم ہو جاتی ہے-

- وہ لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کی دھاندلی کے بارے میں بات کیوں نہیں کی وہ اپنے تعصب میں یہ بھول رہے ہیں کہ جب بھی دھاندلی کی انکوائری شروع ہوئی تو وہ صرف پنجاب یا نون لیگ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ وہ سندھ، کراچی، کے پی کے اور بلوچستان میں بھی ہو گی- اس لئے اس اعتراض کی کوئی منطقی وقعت باقی نہیں رہتی- یہ تحریک انصاف کی تزویراتی چال تو کہلائی جا سکتی ہے مگر اس کی وجہ سے آپ کوئی الزام تراشی نہیں کر سکتے

- اسی مشترکہ خطرے کی وجہ سے تمام جماعتیں سسٹم اور جمہوریت بچانے کے نام پر متحد ہو گئی ہیں تا کہ سٹیٹس کو نا ٹوٹ سکے- ایک بات اور یاد رہے کہ دھاندلی ہمیشہ وہ جماعتیں کروا سکتی ہیں جو الیکشن سے پہلے حکومت کر چکی ہوں، ہر ادارے میں اپنے بندے گھسا چکی ہوں، جو جماعتیں حکومت میں نا ہوں ان کے خلاف دھاندلی ہوا کرتی ہے اور اگر وہ اس کے باوجود جیت جائیں تو وہ اپنے خلاف ہونے والی دھاندلی کے باوجود الیکشن جیتتی ہیں- گزشتہ انتخابات میں ایسی جماعتوں کی مثالیں کے پی کے میں تحریک انصاف کی سیٹیں ہیں

- الطاف بھائی کی مجبوری تھی کہ معاملات پرتشدد رخ اختیار نا کریں کیونکہ انکو یاد تھا کہ گیارہ مئی کو ہونے والے احتجاج کے بعد لندن بھی ان کے لئے محفوظ نہیں رہا تھا- تحریک انصاف کے بیرون ملک موجود پڑھے لکھے سپورٹرز نے لندن میٹرو پولیس میں کالز کر کر کے جو حشر کیا تھا وہ ابھی بھولے نہیں ہوں گے بھائی صاحب

-ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر کراچی میں کوئی بھی جلسہ یا ہڑتال بھائی کی آشیرباد کے ساتھ ہوتی ہے تو پھر لاڑکانہ کا جلسہ پیپلز پارٹی، لاہور، فیصل آباد اور گجرانوالہ وغیرہ کے جلسے نون لیگ کی آشیر باد اور مولانا فضل الرحمن کے سگے بھائی اور بیٹے کا اپنی آبائی سیٹ ہار جانا مولانا فضل الرحمن کی آشیر باد اور میاں صاب کا ہزارہ میں ہونے والا جلسہ تحریک انصاف کی آشیر باد اور جماعت اسلامی کا کراچی میں گزشتہ اور آئندہ ہونے والا جلسہ ایم کیو ایم کی ہی آشیرباد کے ساتھ ہو گا

- آخری نکتہ یہ ہے کہ کیا عوام نے ایم کیو ایم کی ہڑتالوں کے دوران لاشیں اور تحریک انصاف کی خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر ہڑتال میں فرق محسوس نہیں کیا ہو گا؟ اس کا دور رس اور حقیقی فائدہ ایم کیو ایم کا ہو گا یا تحریک انصاف کا؟ گزشتہ انتخابات میں تمام تر زور، زبردستی اور جبر کے باوجود کراچی کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف بن کر ابھری ہے- کیا ایم کیو ایم کبھی بھی اپنے وجود کی ضامن انتخابی مناپلی کو برضا و خوشی خطرے میں ڈالے گی؟

Total Pageviews

Popular Posts