Apnay qatilon ka ishq - اپنے قاتلوں کا عشق

اپنے ہی قاتلوں کے عشق میں مبتلا قوم

پاکستان میں صرف دو سیاسی جماعتیں ہیں- ایک جاگیرداروں کی اور دوسری سرمایہ داروں کی- نام کسی کا نہیں لوں گا کیونکہ جو مزہ اقرار کا اور تکرار کا اشاروں کنایوں میں ہے وہ کہیں اور کہاں- کچھ ہم ڈرپوک بھی ہیں، نام لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے- اس لئے اپنے ڈر کو رومانوی  شکل دے کر اپنی بزدلی پر ایک خوبصورت سا پردہ ڈال دینا بہتر ہے- اور نہ جانے کیوں یہ بھی دل چاہ رہا ہے کہ وہ مشہور فقرہ بھی شامل کر دیا جائے، "اس کالم میں تمام نام، مقامات، حالات اور واقعات فرضی ہیں، کسی بھی حقیقی کردار سے مشابہت محض اتفاقیہ ہو گی"- اچھا جی تو اب دیکھتے ہیں یہ دونوں جماعتیں اقتدار میں کیا کرتی ہیں، کیسے کرتی ہیں اور کیوں کرتی ہیں-

جاگیرداروں کی جماعت اقتدار میں آ کر بڑے آرام سے ہفتے میں دو کیا تین چھٹیاں کرنے پر تیار ہوتی ہے، جاگیرداروں کی بلا سے، سرکاری ملازم کام کریں یا نہیں، سب عارضی آسامیوں کو مستقل کر دو، جہاں پچاس لوگوں کی گنجائش ہے وہاں ہزار بھرتی کر لو، نوکریوں کو سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کرو، اپنے علاقوں میں کوئی اسکول نہ بننے دو، کوئی ہسپتال بھی نہیں، غریبوں کو بھیک دیں صرف کوئی ہنر نہیں، مہینے کا ہزار بارہ سو روپیہ ان کو ڈال دو، یونین بازی کی حوصلہ افزائی کرو سانو کی؟ سرمایہ دار کا سردرد ہے یہ سب- یونیورسٹیوں میں بھی سٹوڈنٹ یونین بنواؤ، یہ غریبوں کے بچے جو اپنی قابلیت کے بل بوتے پر انجینرنگ یونیورسٹی یا میڈیکل کالج تک تو پہنچ گئے ہیں لیکن انہیں نا سیکھنے دو کچھ نا پڑھنے دو- انہیں بتاؤ تمہارا علاقہ جو باقی پاکستان سے پیچھے ہے اس کی وجہ یہ صوبہ ہے، وہ علاقہ ہے، اس زبان کے بولنے والے لوگ ہیں، ان کمی کمینوں کو آپس میں لڑاتے رہو اگر انہوں نے آپس میں لڑنا بند کر دیا تو ہماری باری آ جائے گی، انہیں علم مل گیا تو عقل آ جائے گی، پی آئی اے میں، ریلوے میں، سٹیل مل میں، پی ٹی سی ایل میں، واپڈا میں ہر جگہ اپنے بندوں سے یونین بنواؤ تا کہ بعد میں پوری قوم اور سرمایہ دار کو بلیک میل کیا جا سکے- مزدوروں کے حقوق کی بات ضرور کرو لیکن کسانوں یا مزارعوں کی غلطی سے بھی نہیں کرنی کیونکہ مزدور سرمایہ دار کی فیکٹری میں نوکری کرتا ہے ہماری زمینوں میں نہیں-

اب بات ہو جائے سرمایہ داروں اور انڈسٹریلسٹ کی جماعت کی- یہ لوگ یونین بازی کے شدید خلاف ہوتے ہیں، جائز مطالبات اور حقوق کے لئے بھی یونین نہیں بننے دیتے، نہ مزدوروں کی نہ سٹوڈنٹس کی نہ کسی اور کی کیونکہ انکا سب کچھ شہروں میں ہوتا ہے اس لئے وہاں ایسی چیزیں نہیں ہونی چاہییں جس سے ان کی انڈسٹری یا منافع کو کوئی خطرہ ہو، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کنٹریکٹ پر چلے پورا ملک، غلطی سے بھی کسی کو مستقل نوکری نہیں ملنی چاہئے کیونکہ اگر کوئی ہمارے اشارے پر نہ چلے تو کنٹریکٹ والے کو نکالنا بہت آسان ہوتا ہے- ان کا بس چلے تو ہفتے میں ایک بھی چھٹی نہ ہو اور ہفتے میں سات کی بجائے  دس دن ہوں تا کہ مزدور کو تنخواہ چالیس دن بعد دینی پڑے- ان لوگوں نے سرکاری محکموں میں بھی ڈیلی ویجز یا روزانہ دیہاڑی والی بدعت شروع کی تھی- ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر قومی ادارے کو نجی تحویل میں دے دیا جائے تا کہ انکے بھائی بندوں اور دوست سرمایہ کاروں کی دنیا اور عاقبت دونوں سنور سکیں- انکو امن سے ضرورت سے زیادہ پیار ہوتا ہے چاہے اس کے لئے قومی وقار کی قیمت ہی کیوں نہ دینی پڑے کیونکہ امن ہوگا تو تجارت ہوگی، بزنس پھلے پھولے گا، فیکٹریاں دس سے بیس ہوں گی، راون اور رام لنکا ڈھانے کی بجائے   اپنے اپنے فوجی راکھششوں سے امن کے شنکھ بجتے ہوئے سنیں گے- یہ لوگ ہاریوں کو زمین دیں گے، حب علی میں نہیں بغض معاویہ میں- غلطی سے بھی کوئی ایسا ٹیکس نہیں لگائیں گے جو غریبوں کی بجائے ان کے بھائی بندوں کو دینا پڑے-

 امید ہے اب تک آپ کو سمجھ آ چکی ہوگی کن جماعتوں کی بات ہو رہی ہے اور ان کی سیاست کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں- نہیں آئی؟ کوئی بات نہیں آپ پاکستان کی تیسری جماعت بیوقوف عوام سے تعلق رکھتے ہیں- جو کبھی اپنے ایک قاتل کے جانے پر روتے ہیں اور دوسرے کے آنے پر ناچتے ہیں- ان لٹیروں اور قاتلوں کے لئے اپنے ہے دوستوں اور رشتہ داروں سے بحثیں کرتے ہیں، لڑتے ہیں اور پھر پانچ سال کے لئے روتے رہتے ہیں-  مرنا ہی ہے تو کیا ضروری ہے کہ صرف دو قاتلوں کو یہ سہولت دی جائے؟ کوئی تیسرا قاتل آزما لینے میں کوئی حرج ہے کیا؟ کم سے کم میں تو ہر پانچ سال بعد ایک جیسی موت سے اکتا سا گیا ہوں، اب کسی نیے انداز سے مرنا چاہتا ہوں، کیا آپ ابھی تک بور نہیں ہوئے؟

Total Pageviews

Popular Posts