New Army Chief Selection


ایک وزیرِاعظم اور مشیر کا مکالمہ

آخری وقت اشاعت:  اتوار 6 اکتوبر 2013 , Published on BBC

وزیرِاعظم: کیا کریں ؟

مشیر: فیصلہ تو آپ ہی کو کرنا ہے سر جی۔

وزیرِاعظم: صبح سے بار بار یہ تین تصویریں الٹ پلٹ کر دیکھ چکا ہوں، سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کروں۔

مشیر: کیا سمجھ میں نہیں آ رہا سر جی؟

وزیرِ اعظم : یہ دیکھو تصویر نمبر ایک۔ ناک نقشہ تو ٹھیک ہے مگر آنکھیں چھوٹی ہیں۔ابا جی نے کہا تھا کہ چھوٹی آنکھ والے پر ہمیشہ آنکھ رکھنا اور یہ تصویر نمبر دو، اس کا چہرہ بالکل سپاٹ ہے بالکل چینیوں کی طرح۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ میرے بارے میں کیا ، کیسے اور کیوں سوچتا ہے ؟ اور یہ رہی تصویر نمبر تین، مسکراتا چہرہ ہے لیکن چہرہ تو ضیا صاحب مرحوم و مغفور کا بھی ہمیشہ مسکراتا ہی رہتا تھا اور پھر انہوں نے مسکراتے مسکراتے ہی بھٹو صاحب کی۔۔۔

مشیر: تو پھر جیسے آپ کا حکم ؟

وزیرِاعظم : تیسرے کے بعد چوتھا ، پانچواں ، چھٹا اور ساتواں بھی تو ہوگا۔ذرا ان کی تصویریں منگواؤ۔

مشیر: سر جی تصویریں ریکارڈ سے نکلوانے میں دیر لگے گی۔ میں آپ کو ویسے ہی ان کا ناک نقشہ سمجھا دیتا ہوں۔ چوتھا دُور کا چشمہ لگاتا ہے ۔

وزیرِاعظم: ایک منٹ، دور کا چشمہ تو مشرف بھی لگاتا تھا ؟

مشیر: جی سر۔

وزیرِاعظم: تو پھر دفع کرو۔ پانچویں کے بارے میں بتاؤ۔

مشیر: سر پانچواں کلین شیو ہے مگر پڑھتے وقت قریب کا چشمہ لگاتا ہے۔


وزیرِاعظم: یعنی جہانگیر کرامت کی طرح ؟؟؟

مشیر: جی سر۔

وزیرِاعظم: چلو آگے بڑھو ۔

مشیر: سر چھٹے کی دور اور نزدیک کی نظر ٹھیک ہے مگر مونچھیں ہیں۔

وزیرِاعظم: مونچھیں ؟ کیسی مونچھیں ؟ ضیا الحق مرحوم و مغفور جیسی ، کاکڑ جیسی یا ضیا الدین جیسی ؟

مشیر: سر کاکڑ صاحب سے ملتی جلتی ۔

وزیرِاعظم : آر یو شور کہ ضیا الدین جیسی نہیں ہیں ۔

مشیر: نو سر، لیکن آپ چاہیں تو ہم اسے ضیا الدین جیسی کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔

وزیرِاعظم: نہیں کوئی فائدہ نہیں۔اندر سے تو وہ پھر بھی چھوٹی مونچھوں والا ہی رہے گا نا ۔۔اور ساتواں ؟

مشیر: سر جی ساتویں کی کچھ سمجھ نہیں آتی ۔اسے کبھی کسی نے غصے میں نہیں دیکھا۔ہر وقت چہرے پر فلاسفروں جیسی مسکراہٹ رہتی ہے۔ آپ کا ذکر آجائے تو مسکراہٹ اور گہری ہوجاتی ہے۔

وزیرِاعظم : کیا مطلب اس بات کا؟ کیا وہ مجھے پسند کرتا ہے یا بےوقوف سمجھتا ہے۔

مشیر: سر یہی تو پتہ نہیں چلتا ۔

وزیرِاعظم :ہوں۔۔۔تو پھر بتاؤ کیا کریں ؟

مشیر: سر میری مانیں تو سب کے نام برتن میں ڈال کر کسی بچے سے ایک پرچی اٹھوا لیں۔

وزیرِاعظم : لیکن اگر پرچی پر ان ساتوں میں سے کسی کا نام آگیا تو کیا کریں گے ؟

مشیر: سوری سر۔۔۔یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔

وزیرِاعظم : میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا ہے۔ ذرا اسے ایکسپلور کرو۔تمہیں یاد ہے کہ دو سال پہلے تین ریٹائرڈ افسروں پر جب کرپشن کا الزام لگا تھا تو ان کی ریٹائرمنٹ ختم کر کے انہیں حاضر سروس کر لیا گیا تھا تاکہ اندر خانے ہی ان کا کورٹ مارشل کرسکے ؟

مشیر: جی سر ایسا ہوا تو تھا ۔

وزیرِاعظم : تو پھر کیوں نہ ہم کسی ریٹائرڈ افسر کو دوبارہ حاضر سروس کر کے اس کا نام ایوانِ صدر بھجوا دیں۔ میرے ذہن میں ایک نام ہے۔ ماشااللہ اکیانوے سال کی عمر میں بھی کسی بھی موجودہ حاضر افسر کی طرح چاق و چوبند ہیں ۔تمہیں پتہ ہے کہ اس وقت شمالی کوریا کے چیف آف سٹاف بھی ایک پچاسی سالہ جنرل صاحب ہیں۔ چلی کے جنرل پنوشے بھی اسی عمر میں ریٹائر ہوئے اور ویتنام کے جنرل گیاپ کا تو ابھی ایک سو دو سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے۔یہ سب میں نے وکی پیڈیا پر پڑھا تھا۔کیسا آئیڈیا ہے ؟

مشیر: سر آپ کا آئیڈیا سن کر میرے ذہن میں بھی ایک آئیڈیا آگیا ؟

وزیرِ اعظم : واقعی ؟ جلدی سے بتاؤ۔ تم میرے پہلے مشیر ہو جس کے ذہن میں کوئی آئیڈیا آیا؟

مشیر: سر اگر ہم آرمی کا نام نیوی اور نیوی کا نام آرمی رکھ دیں تو مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔

وزیرِاعظم : لیکن اس سے آرمی والے ناراض ہو سکتے ہیں۔ میں دوسری دفعہ ان کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا ۔

مشیر: تو پھر سر ان تین تصویروں میں سے ہی ایک چن لیں ۔

وزیرِاعظم : در فٹے منہ۔۔۔ تم کدو کے مشیر ہو ؟

مشیر : سر ۔۔


Total Pageviews

Popular Posts