Stop Blaming Everything on Nation - حکمرانوں کو ٹھیک کرنے کا طریقہ


حکمرانوں کو ٹھیک کرنے کا طریقہ

ہماری قوم کے کافی بڑے بڑے سکالرز ایک بات اکثر دوہراتے رہتے ہیں- "جیسے عوام ویسے حکمران"- جب تک عوام ٹھیک نہیں ہوں گے حکمران بھی ٹھیک نہیں ہوں گے- کتنی پیاری بات ہے؟ کتنی گہری بات ہے نا؟ اتنی ہی پیاری ہے یہ بات جتنی ہمارے ملک کی سیاست- افیون کی گولی ہے- زہر کی پڑیا ہے- ظلم ہے اور افسوس ہے کہ کوئی بھی اس پر غور نہیں کرتا، بس اندھا دھند جو کسی نے که دیا اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں ہم لوگ- ویسے بھی یہ ہمارے ملک کے بڑوں کے فائدے کی بات ہے- نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی- اور یہ بات کر کہ سارا الزام عوام بیچاری کے سر آ جاتا ہے اور ظالم حکمران معصوم ثابت ہو جاتے ہیں-

مزید سنئے، عوام کو ووٹ دینے کی کوئی ضرورت نہیں، دینا بھی ہے تو جس کو مرضی دے دیں، کوئی فرق نہیں پڑتا، فرق تو تب پڑے گا جب عوام ٹھیک ہو گی- ہے نا؟ حکمران لوٹ مار کریں تو عوام ہی ساری چور ہے، حکمران کام نہ کریں تو عوام ہی ساری نکمی ہے، حکمران دھوکہ دیں، اپنی ہی کہی ہوئی باتوں سے یہ کہ کر مکر جائیں کہ وعدے کوئی قرآن یا حدیث نہیں ہوتے یا یہ که کر کہ جی وہ تو سب جوش خطابت تھا، تب بھی انکا کوئی قصور نہیں، قصوروار اب بھی بیچاری عوام کیونکہ عوام تبدیل ہوں گے تو حکمران خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے- ہیں جی؟ ہے نا مزے کی بات؟ کس خوبصورتی سے یہ بات حکمرانوں کو ہر الزام سے بچا کر لے جاتی ہے؟ ایسے جیسے مکھن میں سے بال-

یار لوگ اکثر سناتے ہیں، خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسکو خود اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو- اور یہ بھی کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے- بالکل درست باتیں ہیں- جس قوم کو اپنے حکمران خود بدلنے کا خیال نہ ہو، جو جھوٹے، لٹیروں اور چوروں کو برداشت کرتی رہے، اس کے حکمران کب تبدیل ہوں گے؟ جو انسان کوشش ہی نہیں کرتا تبدیلی کے لئے، اسکے حالات کیسے تبدیل ہوں؟ جو قوم اپنے حکمرانوں کی ہر غلطی کو نظر انداز کرتی جائے یہ که کر کہ جب تک قوم تبدیل نہ ہو کچھ تبدیل نہیں ہو سکتا، وہاں کچھ کیسے ٹھیک ہو گا؟ میرے بھائی اگر قوم کو اپنے حکمران ایماندار، سچے اور قابل لوگ منتخب کرنے کا خیال آ جائے تو یہ بیچاری قوم تبدیل ہی تو ہو رہی ہے- اب آپ کو یہ بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ حکمران کا درست ہونا کیوں ضروری ہے-

 فرض کریں ایک یونیورسٹی ہے، اس کے وائس چانسلر صاحب سائیکل پر پوری یونیورسٹی میں گھومنا پھرنا شروع کر دیں تو کیا ہو گا؟ سب پروفیسر صاحبان بھی سائیکل چلانا شروع کر دیں گے، ان کی دیکھا دیکھی سب طلبہ بھی- پھر لوگ دس میٹر کے فاصلے پر بھی گاڑی پر جانا بند کر دیں گے- سائیکل چلاتے ہوئے شرم آنا بند ہو جائے گی، صحت بھی بہتر ہوگی، آلودگی بھی کم اور پٹرول کی بھی بچت- فرض کریں ملک کا وزیر اعظم سادہ شلوار قمیض میں بغیر کسی پروٹوکول کے آتا جاتا نظر آۓ تو کیا کسی وزیر کی جرات ہو گی کہ وہ پروٹوکول کے مزے لے؟ یا کسی بھی سرکاری ملازم کی؟ مزید سوچیے، امریکا جیسا ملک، ہر گناہ عام، پھر بھی انکے صدر کو عدالت میں پیش ہونا پڑا قوم سے جھوٹ بولنے پر حالانکہ انکی پوری قوم وہی کام کھلے عام کرتی ہے، جی ہاں بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کی بات ہو رہی ہے- سی آئی اے جیسی ایجنسی کا سربراہ اسکو وہ کرنے پر مستعفی ہونا پڑے جو انکی قوم میں ایک عام بات ہے- کیوں؟ اس لئے کہ حکمران مثال ہوتے ہیں عوام کے لئے، نمونہ ہوتے ہیں، رول ماڈل ہوتے ہیں، انکا اچھا ہونا قوم کے اچھا ہونے سے بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے-  

اور اب سب سے آخری بات جس کے بعد شاید کسی اور مثال کی ضرورت نہ پڑے، میرے پیارے نبی صل الله الیہ واسلم نے جب مکہ میں دعوت اسلام کا کام شروع کیا تھا تو کتنے مسلمان تھے وہاں؟ انہوں نے تو قوم کے تبدیل ہونے کا انتظار نہیں کیا، انہوں نے تو یہ نہیں کہا کہ جیسی قوم ویسے حکمران، انھوں نے اپنے کردار، ایمانداری، صداقت، جذبے، الله کی مدد اور ایمان کی طاقت سے عرب وحشیوں کو انسان بنا دیا-

 آج ہمیں ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو قوم کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جو سٹیٹس کو کا محافظ نہ ہو، جو لوگوں کی زندگیاں بدل دے، انھیں ٹرانسفارم کر دے، اور قوم کو کیا کرنا چاہیے؟ "جب تک قوم تبدیل نہیں ہو گی، کچھ تبدیل نہیں ہوگا" کا راگ الاپنا چھوڑ کر ایسے لیڈر کا ساتھ دینا چاہیے- ایسے لیڈر جو لوگوں کو تبدیل کر دیں قوموں کو صدیوں میں ملتے ہیں، خوش قسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جو ان سے فائدہ اٹھا لیں اور بد قسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جو انھیں کھو دیں- میں کسی کا نام نہیں لوں گا، اپنے آس پاس دیکھیں، کوئی ایسا لیڈر ہے جس نے قوم میں تبدیلی کی روح پھونک دی ہو؟ جس نے ان لوگوں کو سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا ہو جو سیاست کے نام سے چڑتے تھے؟ ہے کوئی ایسا لیڈر آج آپ کے پاس جس نے لوگوں کو اردو میں لکھنے کے لئے گوگل ٹرانسلیٹر استعمال کر کے، اپنی سرکاری نوکری خطرے میں ڈال کر سیاست پر کالم لکھنے پر مجبور کر دیا ہو؟ اگر ہے ایسا کوئی تو اس کو ضایع مت ہونے دیجئے گا- اسکی مدد کریں اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں پر احسان کیجیے- بھرتی کے لیڈرز اور ٹھیکیداروں سے جان چھڑوا لیجئے- لیڈر اور مینیجر کے فرق کو سمجھیں- الله ہمیں دیکھنے والی آنکھ اور سمجھنے والا دماغ عطا فرمائے- آمین-

I may be contacted at waqaraq@gmail.com

Total Pageviews

Popular Posts