نصرت الٰہی۔ فراز نقوی
خدا کی قسم یہ نصرت الٰہی نہیں تو اور کیا ہے!!!
اس ایک شخص کو سب مل کے گرانے چلے تھے، تیاری پوری تھی، شکنجہ بھی کس لیا تھا۔ مقتدر حلقے بھی زچ تھے، بڑا گھر بھی آن بورڈ تھا، باہر سے بھی آشیرباد حاصل تھی، سروے چیخ چیخ کے غیر مقبولیت کا پتہ دے رہے تھے۔ کوئی کہتا بزدار کیوں لگایا!!
کوئی کہتا جہانگیر کو علیم کو ناراض کر دیا، کوئی کہتا فیض پہ ضد کی، اب اسکی خیر نہیں۔
کوئی ڈالر، تیل، مہنگائی، بجلی کی دہائی دیتا۔
وہ ان سب سے بے پروا!
ازل کا سادہ درویش!
لگا رہا اپنے کام میں۔
کہیں لنگر خانے کھولتا کہیں پناہگاہ۔ کبھی کرونا سے لڑتا کبھی لاک ڈاؤن کے خلاف۔
کبھی تیل پہ ٹیکس ختم کرتا، کبھی بجلی پہ، کبھی صحت کارڈ دیتا کبھی احساس کیش، کہ غریب کا چولہا جلتا رہے۔
کبھی IMF جاتا!
کبھی عربوں کے در جھکتا!
کبھی ٹیکسٹائل کو پیکج دیتا کبھی کنسٹرکشن کو، کہ پہیہ چلتا رہے۔ ایکسپورٹس کی بات کرتا،
کبھی ٹیکس کولیکشن کی،
کبھی خودداری کی بات کرتا،
کبھی خود انحصاری کی۔
قوم کی تربیت کرتا کہ کرپشن سے جان چھڑا لو! اپنے ملک کا سوچو!
ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہ ملک عظیم بنے گا، میری قوم عظیم ہے!
کیسا کیسا وقت آیا اور وہ ڈٹ گیا، جہاز آئے تو ملک کے لئے ڈٹ کے کھڑا ہو گیا، کہتا تھا! جواب دینے کا سوچوں گا نہیں، جواب دوں گا!
اور دیا!
اور ایسا دیا کہ چشم فلک نے ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔
اس قوم نے ایسا عروج نہیں دیکھا تھا۔
دشمن، طیارے، پائلٹ!
سب الٹ پلٹ دیئے۔ فوج کو بھی فخر ہوا کہ کوئی ہے جو ڈٹ سکتا ہے۔
پھر امریکہ آیا! افغانستان سے نکلتے ہوئے، ہاری ہوئی جنگ کا ملبہ ہم پہ ڈالتے،
اڈوں کا متمنی کہ جنگ جاری رکھے۔ڈٹ گیا! کہتا نہیں دوں گا!
ایسا جواب، امریکہ کو؟
جس نے بھی دیا، قتل ہوا یا اپنوں کے ہاتھوں پھانسی!
لیکن وہ ڈٹ گیا، نتائج سے بے پرواہ!
محمد کا دیوانہ، مدینہ ننگے پاؤں جانے والا، حرمت رسول پہ پوری دنیا سے ٹکر لینے والا، اسلاموفوبیا سے لڑنے والا۔ ڈٹ گیا!!
سمجھا کہ قوم میرے ساتھ ہے!
وہ سمجھا فوج میرے ساتھ ہے! سادہ اتنا کہ اگست 21 میں چیف کو کہہ دیا کہ اگلا چیف فلاں کو بنائیں گے۔ وہ تو مل کے ملک ٹھیک کر رہا تھا!
جانتا نہیں تھا کہ سب اس کی طرح مخلص نہیں ہیں۔ لوگوں کے اپنے مفادات ہیں، اپنے مسائل ہیں۔ پریشر آتا ہے تو سب اسکی طرح 'ابسولوٹلی ناٹ' نہیں کہہ سکتے۔
سازش ہوتے دیکھتا رہا، کہتا رہا کہ سازش ہو رہی ہے۔ ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ اسپیکر کو کہا، اپوزیشن کو کہا، سپریم کورٹ کو کہا، نیشنل سیکیورٹی کونسل کو کہا، کسی نے نہیں سنا تو عوام کو کہا۔
کسی نے مذاق اڑایا، کسی نے دھمکی دی، عدالتیں کھل گئیں، گدھ اکٹھے ہو گئے، بے بس ہو گیا، گھر گیا۔
ہر طرف سے گھر گیا، کوئی قانونی راستہ نہ بچا تو اٹھا، پوچھا:
"کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہوا ہو؟"
اپنی کل متاع، ایک ڈائری اٹھائی، اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا بنی گالہ چلا گیا۔
چلا گیاا لیکن ایسی جوت جگا گیا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی، ایسی آگ لگا گیا تن میں جو بجھ نہیں رہی۔
پھر میرے رب نے دن پھیر دیئے، دل پھیر دیئے!
سازشی اکٹھے تھے، پلان مضبوط تھا، عہدے بٹے ہوئے تھے، فیصلے ہو چکے تھے۔ لیکن رب کی منظوری نہیں تھی!
ایسی کایا پلٹی کہ سوئی ہوئی قوم جاگ گئی۔
جو کبھی نہیں جاگی تھی، ماڈل ٹاؤن ہو یا 71، اے پی ایس ہو یا بھٹو کی پھانسی، جو کبھی نہیں جاگی!
نجانے اب کیسے جاگ گئی؟
اب جو کرتے ہیں الٹا پڑتا ہے!
تیل بڑھاؤ یا کم کرو، ڈالر اوپر یا نیچے کرو، مہنگائی کم یا زیادہ کرو، جسے بھی وزارت دو، جو عہدہ بھی جسے دو، حلف میں شرکت کرو یا نہیں، ملو یا نہیں، سیلوٹ کرو یا نہیں، ساری پارٹیاں اکٹھی کر لی، سارا میڈیا خرید لیا، ڈالر بھی لے آئے۔
مبارکباد کے پیغامات بھی آ گئے، دوروں کی دعوتیں بھی، پراجیکٹ بھی،
لیکن! جو مرضی کرو، بات بنتی نہیں ہے،
عوام کو جچتی نہیں ہے، ٹرینڈ نیچے نہیں آ رہے، عوام گھر نہیں بیٹھ رہی، افسر بات نہیں سن رہے، ریٹائرڈ بھی چپ نہیں کر رہے، سمجھ نہیں آرہی یہ کیا ہے؟
یہ نصرت الٰہی نہیں تو اور کیا ہے!!
On Uniform Education System یکساں نظام تعلیم
This is perhaps my first article which I'm writing in both English and Urdu simultaneously. The reason for that is simple: Those who matter hardly read Urdu and those affected rarely understand English. So, I want to take a chance to be read by both sections.
جسٹس قاضی فائز کے بارے میں - About Justice Faiz Qazi
مجھے یاد ہے افتخار چوہدری صاحب"عدلیہ کی آزادی"کی مہم کی قیادت کر رہے تھے اور اعتزاز احسن"ریاست ہو گی ماں کے جیسے" گا رہے تھے، فدوی تب عرض کر رہا تھا کہ یہ ایک غلط آدمی ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ فدوی کی وہ رائے درست تھی اگرچہ دلی ہمدردیاں اس تحریک میں میری بھی ججز کے ساتھ تھیں۔ مشرف کو میں تب بھی غاصب سمجھتا تھا۔ لیکن افتخار چوہدری کا رویہ اور طریقہ کار سائرن بجاتا رہتا تھا۔ خیر بعد میں پورے پاکستان نے دیکھا کہ وہ کیسا المناک سراب ثابت ہوئے، آج جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کے بارے میں بھی میرے لئے نہایت محترم شخصیات نہایت مثبت آراء رکھتی ہیں اور میری ذاتی خواہش ہے کہ میں ان سے اتفاق کروں لیکن مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ایسا کرنے سے خود کو معذور پاتا ہوں:
ایک- جج صاحب کی اپیل کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل (چاہے وہ انسانیت کی ارزل ترین شکل پر ہی کیوں نا ہو) پر ان کے ذاتی اور جذباتی حملے ان کے عہدے اور مقام کے شایان شان نہیں تھے
دو- انٹرنیٹ سے کسی شخص کی مبینہ جائداد کا تقابل اپنی تسلیم شدہ جائداد سے کرنا ہرگز کوئی منطقی و مسکت قانونی رویہ نہیں تھا
تین- قانون میں میرے لئے ایک طرح سے استاد کی حیثیت رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صاحب کی جسٹس صاحب کے بارے میں انتہائی مثبت رائے رکھنے کے باوجود میرے لئے آج بھی یہ ہضم کرنا مشکل ہے کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ میرٹ پر تھا یا اس میں نواز شریف خاندان کو بے انتہا ناجائز قانونی فائدہ نہیں پہنچایا گیا
چار- افتخار چوہدری صاحب کی ذاتی درخواست پر ان کا جج بننا میری ناقص رائے میں ان کا کوئی میرٹ نہیں بلکہ ڈی میرٹ ہے
پانچ- میں یہ بھی نہیں کہتا کہ جج صاحب چور ہیں یا کرپٹ ہیں۔ میرے خیال میں یہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس بچانے کا کیس نکلے گا (جو قانون کی نظر میں جرم ہی ہے لیکن پاکستان کے کاروباری طبقے میں اسے عام روٹین سمجھا جاتا ہے)۔ اور شائد اسی وجہ سے جسٹس صاحب نے حدیبیہ و دوسرے کیسز میں وہ تمام کمنٹس دیئے جو بعد میں ان کے کیس کے ساتھ بھی خاصی حد تک مطابقت رکھتے تھے
چھ- جج صاحب کا ایک اور ذہنی و نفسیاتی رویہ خبط عظمت میں مبتلا ہونے کا ہے۔ یہ رویہ میں نے آج تک جس میں بھی دیکھا ہے وہ کوئی مثبت شخصیت نہیں نکلی۔ چاہے وہ وقاص گورایا ہو یا سلمان حیدر یا ماروی سرمد یا گل بخاری یا افتخار چوہدری یا جسٹس شوکت صدیقی وغیرہ وغیرہ۔ قاضی صاحب کا رویہ، عمل اور طرز عمل سب نہایت جذباتی اور مخاصمانہ رہے ہیں۔ کل ہو سکتا ہے وہ چیف جسٹس بھی بنیں تو ایسے رویے کے اظہار کے ساتھ وہ اپنی منصفی کے تقاضوں پر پورا اتر سکیں گے؟ فدوی بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں پاتا ہے
سات- جج صاحب یا ان کی اہلیہ محترمہ دونوں نے جذباتی بیانات تو خوب دیے ہیں مگر سات لاکھ پاؤنڈ ایک خطیر رقم ہے۔ یہ گلے یا گُجے یا گھڑے میں نہیں جوڑی گئی ہو گی۔ جج صاحب کی اہلیہ خود کہہ چکی ہیں کہ وہ میرے اپنے وسائل سے حاصل کردہ رقم تھی۔ مطلب جج صاحب کی لا فرم کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اور بیگم صاحبہ کا کوئی کاروبار نہیں تھا۔ تو لازمی یہ رقم کسی فائنانشل ٹرانزیکشن کے نتیجے میں آئی ہو گی۔ بیگم صاحبہ نے تمام دستاویزات دکھا دیں یہی ایک دستاویز نہیں دکھائی۔ اشارتاً بھی اس کے بارے میں بات نہیں کی۔ حالانکہ پورے کیس کی جڑ ہی ان منی ٹرانزیکشنس کی منی ٹریل ہے اور تو کیس کچھ ہے ہی نہیں
آخری بات یہ ہے کہ جج صاحب کے فوج کے خلاف کھڑے ہونے پر انہیں کھڑے ہو کر سات سرخ سلام۔ اگر وہ واضح اور صاف منی ٹریل بھی پیش کر دیں جذباتی ڈائیلاگز کی بجائے تو پوری قوم انہیں چودہ سرخ سلام پیش کرے گی۔ بصورت دیگر ایک اور افتخار چوہدری اس بدقسمت قوم کی زندگی میں آنے والا ہے- پیشگی لکھ کے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا تا کہ مستقبل میں اپنے محترم دوستوں کو اس کا حوالہ دیا جا سکے جیسے آج بھی افتخار چوہدری کے بارے میں میری آراء اپنے کالج کی المنائی کے یاہو گروپ پر موجود ہیں جو فدوی نے 2007-8 میں دی تھیں
Total Pageviews
Popular Posts
-
جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کے بارے میں چند پیشگی معروضات مجھے یاد ہے افتخار چوہدری صاحب "عدلیہ کی آزادی" کی مہم کی قیادت کر رہے تھے ...
-
We mostly keep on criticizing everyone. Or we keep on spreading rhetoric without even understanding what are we saying. I am going to try s...
-
http://www.thenews.com.pk/Todays-News-9-234545-Not-with-the-gun-alone Translated by Sahwish Sulehria