Showing posts with label Published Articles. Show all posts
Showing posts with label Published Articles. Show all posts

Reality of Propaganda of PMLn against Judiciary

تحریر: عامر ہاشم خاکوانی

 کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں سپریم کورٹ پر ایک ہی بار فزیکل حملہ کیا گیا، جب ایک سیاسی جماعت کے سینکڑوں کارکنوں نے سپریم کورٹ پر ہلہ بول دیا اور چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کو بھاگ کر ریٹائرنگ روم میں پناہ لینا پڑی اور وہاں سے وہ بمشکل نکل پائے ورنہ ہجوم کے ہاتھ زخمی ہوجاتے ۔ 

  وہ جماعت مسلم لیگ ن ہے۔ یہ واقعہ انیس سو ستانوے کا ہے جب وزیراعظم نواز شریف تھے اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔ 

    کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ایک واقعہ ایسا ہے جب وزیراعظم کے خصوصی مشیر نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ایک اور جج کو فون کر کے کہا کہ وزیراعظم کے مخالف سیاستدان کو فوری سزا سنائی جائے۔ 

  وہ فون ٹیپ ہوگیا اور بعد میں منظر عام پر آنے پر ان دونون ججوں کو استعفا دینا پڑا۔ 

  جی اس واقعے میں بھی ن لیگ ملوث تھی۔ سیف الرحمن فون کرنے والا تھا جبکہ ملک قیوم اور ایک اور جج کو استعفا دینا پڑا تھا۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک پارٹی کے سربراہ کی اسمبلی توڑی گئی اور پھر بحال ہوئی اور پھر بحال کرنے والے ججوں کے بارے میں اس وقت کی اپوزیشن لیڈر جو ایک سابق وزیراعظم بھی تھیں، انہوں نے بیان دیا کہ (پیسے کی )چمک کام دکھا گئی۔ 

  جی وہ بھی ن لیگ کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔ وہ واحد ایسے خوش نصیب سیاستدان ہیں جن کی توڑی ہوئی اسمبلی بحال کی گئی۔ اسے جسٹس نسیم حسن شاہ نے بحال کیا تھا، جن پر ن لیگ کے طرفدار ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ کارروائی کر رہی تھی، اچانک ایسا جادو چلا کہ سپریم کورٹ منقسم ہوگئی اور بعد مین وہ مخالف چیف جسٹس ہی کو جانا پڑا۔ بعد میں کہا گیا کہ اس وزیراعظم کے اشارے میں ایک سابق جج بریف کیس لے کر کوئٹہ گئے اور جوڑ توڑ کیا۔ 

  کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سابق جج کو بعد میں حیران کن طور پر صدر مملکت بھی بنایا گیا۔ ان کا نام رفیق تارڑ تھا ، وہی جن کا نواسا عطا تارڑ آج کل ن لیگ کا کرتا دھرتا رہنما ہے۔ 

  جبکہ وہ وزیراعظم بھی نواز شریف تھا۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک سابق وزیراعظم کو صڑف پچاس روپے کے سٹامپ پیپر پر ایک خالی خولی یقین دہانی کے بعد باہر جانے دیا گیا اور وہ پچھلے ساڑھے تین برسوں سے واپس نہیں لوٹا۔  تب حکومت نے عدالت کو کہا تھا کہ اس سے چند ارب یا چلیں کروڑوں کا بانڈ بھروائیں، واپس نہیں آئے گا۔ عدالت نے ایسا نہ کیا اور وہ سابق وزیراعظم آج لندن میں بیٹھا مزے سے کافی پیتا ، آئس کریمیں کھاتا گھومتا پھرتا ہے اور ایک بار بھی اپنی اس نام نہاد پیچیدہ بیماری کے علاج کے لئے ہسپتال داخل نہین ہوا۔ 

 جی اس کا نام نواز شریف ہے۔ 

  کیا آپ جانتے ہیں کہ صرف دو ڈھائی سال پہلے ایک سابق وزیراعظم کے بھتیجے اور سابق وزیراعلیٰ کے بیٹے کی ضمانت ایک جج صاحب نے اتوار کے روز لے لی اور ہرگز یہ نہیں کہا کہ حفاظتی ضمانت کے لئے ملزم کو عدالت میں پیش ہونا ضروری ہے۔ 

  جی وہ ملزم حمزہ شہباز شریف تھا۔ ضمانت لینے والے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاسم خان تھے۔ وہی صاحب جو ن لیگ کے چہیتے رہے ۔ 

 کیا آپ جانتے ہیں کہ انہی جسٹس قاسم خان صاحب نے احتساب عدالت کے ریٹائر ہوجانے والے ججوں کی جگہ نئے جج تعینات نہ کئے، مہینوں تک وہ سیٹیں خالی رہیں، عدالت میں کیسز آگے نہ بڑھے اور پھر اسی بات کو بنیاد بنا کر ان ملزموں (جی وہ سب ن لیگی لیڈر تھے ) کی ضمانت لے لی کہ نیب ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی اور یہ کئی ماہ سے اسیر ہیں۔ نیب چیختی چلاتی رہی کہ ان ججوں کو آپ نے مقرر کرنا تھا، اگر نہیں کئے اور وہ عدالتیں خالی تھیں تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک سابق چیف جسٹس ایسا بھی تھا جس نے نوے کے عشرے میں ن لیگ سے کونسلر کا الیکشن لڑا۔ ن لیگ نے اسے ہائی کورٹ کا جج بنادیا اور وہ بعد میں خاصا عرصہ چیف جسٹس بھی رہا۔ ان کانام خواجہ شریف تھا۔ 

  جی صاحبو! یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں اور بے شمار واقعات موجود ہیں۔ اتنے کہ بہت سے لکھے نہیں جا سکتے، زبانی سنائے جا سکتے ہیں۔ بعض لکھتے لکھتے میں تھک جائوں گا۔ جس سابق چیف جسٹس نے اسمبلی بحال کی تھی، اس کا ایک حیران کن واقعہ ایسا ہے کہ لکھوں تو یقین نہیں آئے گا۔ چلیں رہنے دیتے ہیں۔ کبھی ملاقات ہوئی تو زبانی بتائوں گا۔ راوی اس کا ن لیگ کا نہایت سینئر اور معتبر حامی صحافی ہے۔

   آج جب مریم نواز شریف چیخ چیخ کر جلسوں میں جھوٹے الزامات لگاتیں اور صاف جھوٹ بولتی ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ 

  اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت 

  دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ  

والا شعر سنانے کو جی چاہتا ہے

Future of Imran Khan and Establishment - Fraz Naqvi

خان کبھی مقتدر حلقوں کی پہلی چوائس نہیں تھا!!

اگر نواز شریف 13 جولائی کو مریم نواز کے ساتھ لاہور نا آتا  تو شہباز شریف ہی 2018 میں  وزیراعظم ہوتا- وہی شہباز شریف جو ریلی کو لاہور کی گلیوں میں گھماتا رہا اور ائر پورٹ نہ پہنچا۔

نواز شریف کو جیل بھیجنا پڑا اور خان کو وزیراعظم کے طور پر لانا پڑا۔ تب بھی کوشش کی گئی کہ پنجاب ن لیگ کو دیا جائے مگر خان ڈٹ گیا کہ یہ نہیں تو وہ بھی نہیں!

وہ علیحدہ بات کہ آپس کی چپقلش میں ہمیں بزدار کا تحفہ ملا جو بالآخر وہ طوطا ثابت ہوا جس میں خان کی جان تھی اور پیرنی کا استخارہ ٹھیک نکلا کہ جب تک بزدار ہے تبھی تک خان بھی وزیراعظم ہے!

مقتدرہ نے خان کو فل سپورٹ کیا!

یہ کوئی معجزہ نہیں تھا، کیانی کی اسی پالیسی کا تسلسل تھا کہ جمہوری حکومت کے پیچھے کھڑے ہونا ہے جب تک وہ ریڈ لائن نہ کراس کرے۔ اسی پالیسی کے تحت اٹھارویں ترمیم بھی برداشت کر لی گئی اورآج بھی ڈی جی ببانگ دہل فرماتے ہیں کہ اس ملک میں کبھی مارشل لا نہیں لگے گا!

بہرحال خان آگیا، لیکن چل نہیں رہا تھا- گورننس نظر نہیں آرہی تھی، بزدار اور محمود جیسے کارٹون مسلط تھے۔ مہنگائی رک نہیں رہی تھی، معیشت ہلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اسد عمر اور اسکی سرجری کی پالیسی سے بزنس میں سے لے کر آئی ایم ایف تک سب پریشان تھے۔ مقتدرہ نے زور لگایا اور اپنا بندہ لے آئی لیکن حالات مشکل تھے۔

 کچھ مانگ تانگ کے معاملہ چلا تو کرونا آ گیا۔ خان کی نیت ٹھیک تھی لیکن سر پیر کوئی نہیں تھا۔ میڈیا کی دم پہ پاؤں رکھ دیا، اپوزیشن کو تننے کی کوشش کی، ٹیکس کے لئے بھی زور لگایا لیکن ہر طرف مافیا تھا، کمزور حکومت تھی، کہیں بلیک میل ہوتا، کہیں عزت بچاتا، کہیں یو ٹرن لیتا۔

خان ڈٹا رہا! مستقل مزاجی کے ساتھ لیکن مقتدرہ پر پریشر بڑھ رہا تھا۔ کوئی کہتا سر یہ کیا تبدیلی ہے، نہ گورننس ہے نہ کرپشن پہ کنٹرول۔ بزدار ہے اور فیصل واڈا، شہباز گل ہے اور شہزاد اکبر، خسرو بختیار ہے اور جہانگیر ترین کی شوگر ملز۔ میڈیا کی مس مینجمنٹ سے مسائل اور بھی زیادہ دکھتے تھے۔

پھر خان نے ابسولوٹلی ناٹ کہہ دیا تو میاں صاحب کی تو جیسے چاندی ہو گئی۔ میاں صاحب جن کا غیرت سے دور کا بھی واسطہ نہیں،  چار بار پکڑے گئے الحمدللہ چاروں بار جھکے، پیچھے ہٹے پھر بوٹ پالش کئے اور واپس آ گئے، ایک بار بھی بھٹو کی طرح غیرت نہیں دکھائی سو آج بھی زندہ ہیں اور اگلی باری کے امیدوار۔

مقتدرہ پہلے دن سے اپوزیشن کو سزاؤں اور امریکہ سے پنگے کے خلاف تھی۔ وہ سمجھتے تھے ملک کا وسیع تر مفاد اسی میں ہے۔ نواز شریف اور مریم کو ریلیف بھی اسی لئے ملا۔ خان کے لئے یہی دو اشوز ضروری تھے، اس کی پولیٹیکل ہسٹری انہی نعروں پر تھی، اس نے الیکشن ہی کرپشن پر لڑا تھا۔ مقتدرہ کا زور پرفارمنس پر تھا،  خان بات مانتا نہیں تھا۔

ابسولوٹلی ناٹ پر کسی کو اعتراض نہیں تھا، نعرے لگانے اور شور مچانے پر تھا۔ روس جانے پر سب آن بورڈ تھے لیکن یو این کی قرارداد میں ووٹ پہ اختلاف تھا۔ اور یہ شکوہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے کہ خان کے لئے وہ کام بھی کئے گئے جو باقی کسی کے لئے نہیں ہوئے۔ کارکے ہو یا ریکوڈیک، این سی او سی ہو یا لوکسٹ، الیکشن ہو یا کوئی بل، نمبر پورے کرنے ہوں یا کسی کو چپ کروانا، مقتدر حلقے ہمیشہ خان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔

مسئلے بڑھتے گئے کیونکہ خان کی پاپولیرٹی گرتی جا رہی تھی۔ بزدار سے پنجاب نہیں سنبھل رہا تھا، اتحادی خوش نہیں تھے لیکن مجبور تھے۔ پھر میاں صاحب نے نام لے کر گالیاں شروع کیں، مولانا نے چیخ چنگھاڑ میں حصہ ڈالا، امریکا بہادر نے بھی ناراضگی ظاہر کرنا شروع کر دی، میاں صاحب نے لندن کی دوائی کا فائدہ اٹھا کے ملنا جلنا شروع کیا۔ اور خان، اپنی سادگی میں، کبھی پرنس کو ناراض کرتا، کبھی کنگ کو، کبھی ترین کو اور کبھی علیم کو، کبھی اتحادیوں کو اور کبھی ان کو لانے والوں کو۔

اندر سے آوازیں بڑھنا شروع ہو گئیں کہ سر یہ تھا نیا پاکستان؟ یہ تھی تبدیلی؟ اوپر سے خان صاحب کی لیڈری کم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ کبھی رشین بلاک کی بات کرتا کبھی اگلے چیف کی۔ انہیں سمجھایا گیا کے سر، روس، چین نہیں ہے! ہم ایران نہیں ہیں نہ ہی انڈیا!۔ پہلے اپنا گھر ٹھیک کر لیں، لیکن خان کو کون سمجھا سکتا ہے!

جب مقتدرہ کو لگا کہ خان سمجھ نہیں سکتا، اچھے کام کا کریڈٹ خود لیتا ہے اور گالیاں ہم کھاتے ہیں تو انہوں نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جن بیساکھیوں پہ خان صاحب تھے، وہ کھینچ لیں اور کہا کے چار قدم خود چل کر دیکھیں۔ چلنا کیا تھا، خان صاحب کھڑے بھی نہ رہ سکے، دھڑام سے گرے۔ غرور اتنا تھا کے جھکے نہیں،اکڑ گئے۔ لیکن!!!

اور اسی لیکن کے بعد اصل بات ہے!!

لیکن ہوا یہ کہ کبے کو لات راس آگئی! خان کی سادگی، بے بسی، لڑنے اور ڈٹ جانے کی قوت، ٹھیک نیت اور کام کی لگن، باطل کے سامنے کھڑے ہونے کی سکت، انجام سے بے پرواہی، خلوص، انکار، للکار، خودداری، غیرت یا جو کچھ بھی تھا وہ عوام کو بھا گیا۔ اور عام عوام بھی نہیں،  پڑھی لکھی عوام، نوجوان، خواتین، بزرگ، گلی محلے والے، کوٹھیوں والے غرض ہر کوئی۔ اور اب؟

‏ اب جو کرتے ہیں الٹا پڑتا ہے۔ جو مرضی کرو، بات بنتی نہیں ہے!!

خان آج بھی مقتدر حلقوں کی چوائس نہیں ہے!

لیکن کیا مقتدرہ عوام کے خلاف جا سکتی ہے؟ کیا عوام کے وسیع تر مفاد میں مشرف سے جان چھڑوانے والے، عوام کی نبض پڑھنے والے جنکی اصل طاقت ہی عوام کی سپورٹ ہے، عوامی جذبات کے خلاف جا سکتے؟ اور اگر جائیں بھی تو آخر کب تک؟ کیا انہوں نے 6 ماہ کا سوچنا ہے صرف؟ نہیں حضور! بلکہ اس کے بعد کا!

 کیا ایک اپائنٹمنٹ تک محدود ہو چکے ہیں وہ؟ دل نہیں مانتا!

  کیا یہ 77 ہے؟ کیا خان بھٹو ہے؟ اور اگر ہو بھی تو، کیا کوئی ضیاء بننا چاہے گا؟ کیا پاکستان اسکا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستان، خان کو کھو سکتا ہے؟ کیا ملک کسی اور سانحے کا بوجھ سہہ سکتا ہے؟

   جی نہیں حضور!!! جی نہیں!!!

On Uniform Education System یکساں نظام تعلیم

On Uniform Education System and Medium of Instruction

This is perhaps my first article which I'm writing in both English and Urdu simultaneously. The reason for that is simple: Those who matter hardly read Urdu and those affected rarely understand English. So, I want to take a chance to be read by both sections.

First a brief background because most of you might not know me. I've been teaching for past 15 years in public sector in Pakistan. My specialization is engineering and technology. Here is what my thinking was in the starting years of my career: "English is extremely important. I must teach in English as much as possible. It will benefit my students".

Then, I happened to win a scholarship for higher studies from a top European university (Not from HEC but from the respective European country). Their first language was not English but thankfully post graduate education was in English for international students. There, I learned many lessons and now my opinion is:
"One simply can't innovate or do top quality research (at least not at one's full potential) unless done in one's native language".

Ever since I returned, I speak more Urdu during my lectures despite being more conversant in English than earlier. And it has benefited my students immensely. The background for this paradigm shift is rather unlikely and strange: It is not because French teach in French, Germans teach in German, Chinese teach in Chinese or Italian teach in Italian. It is because of my observation of Iranian students. They were PhD students who did their 18 years education (MS or MPhil) in Persian and then came to my university for PhD in English. They were not only on an average better than average Pakistanis in mathematics, but their English language skills were also superior.

It was a very paradoxical situation initially. On one hand, you've Pakistani students most of which had studied most of their subjects in English throughout their lives. On the other hand, we had Iranians who didn't study with English as medium of instructions. Okay, I could blame our primitive teaching techniques for a weaker base in science. But at least in English skills, we were supposed to be better than them! Even that was not the case. 

So, I started discussions with Iranian students. They basically had two advantages which we Pakistanis didn't have.

1. Uniform Education in their lingua franca
2. Study of English as a subject from competent teachers rather than "Englishization" of all courses. Mostly they studied English for hardly 6 months prior to their admissions abroad and they were also quick to learn the new languages

It gave them firm grasp of their subjects with acceptable (still better than us) English language skills. And please! DO NOT TAKE ME WRONG. I'm not advocating for unnatural and odd translation of everything. For example, I'm not saying to do the following kind of translation:
English: This is a speaker
اردو: یہ ایک آلہ مکبر صوت ہے 
I'm actually advocating this kind of translation
اردو: یہ ایک سپیکر ہے
Or
یہ ایک speaker ہے
Similarly, I'm not suggesting this kind of translation
English: Reflection and refraction are two primary modes of the way light interacts with materials
اردو:  روشنی انعکاس اور انجذاب کی صورت میں چیزوں کے ساتھ تعامل کر سکتی ہے
I'll rather prefer a translation like this:
روشنی جب چیزوں پر پڑتی ہے تو اس سے reflection بھی ہو سکتی ہے اور refraction بھی

You could say that I'm neither with the school of thought which supports absolute "Englishization" nor am in agreement with the "Urdu puritans" who are adamant on translating everything. Using the mid way approach as I explained above, we may get the best of both worlds: Students with sound understanding and not disconnected from the relevant English scientific terms. 

Another aspect on which we must focus is not only a uniform curriculum but also a uniform system of examination, uniform minimum teacher qualifications, trainings, and mode of teaching. To achieve that we will have to make practical compromises: We will have to add a little more religious content in the schools, a little more scientific content in the madaris, a little more foreign content in Matriculation / FSc systems and a little more local content in O levels / A level system. Similarly, local languages / cultures must also get due share in the content. Only then such a system will be accepted by all. But it will be equally likely that such a system will also be rejected by all because it will not share or reflect thinking from just one school of thought. (Actually, today it is also a litmus test. If on any step of yours, you're accused of following a 'yahoodi agenda' by religious fanatics or being too religious by secular extremists, you're most probably on the right track).

I agree with Prof Hoodbhoy on so many things like the flaws in the HEC policies, monetization of education and research, Tenure track system in its current form (I never opted for it despite strong financial and societal temptations), I also agree with him that too much of religious content in a professional degree will not be ideal but do we live in an ideal world or country? No, we do not. And that's why our approach to issues should be more pragmatic and realistic. Uniform curriculum is a good beginning. Once everyone's stakes are increased in a uniform curriculum, it will automatically be evolved towards a more rational and practical form. It is at least a good beginning. Let it go on.

If my last argument didn't appeal you yet, I'll quote my favourite example. Let us imagine a town in Pakistan is deadly against female education but they might accept education of boys. What should we do in this situation? You've basically two options:

1. Cry foul. Refuse to start school there unless they agree to educate girls as well. Advocate a military solution against defaulters in the extreme case
2. Let the boys be educated peacefully and happily knowing that tomorrow these very boys will be advocating for education of their sisters and daughters. And it will be hard to resist their voices

What would you choose? I'm deadly against the former and fully in the favour of the latter! And I believe that our approach to every issue should be pragmatic and realistic. Please never forget that "change is a process not an event" and every process takes some time. Thank you for reading.

Note: The Urdu translation follows below

یکساں نظام تعلیم، نصاب تعلیم اور زبان تعلیم پر

یہ شائد میرا پہلا مضمون ہے جو میں انگلش اور اردو دونوں میں لکھ رہا ہوں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے: جو لوگ ہمارے معاشرے میں اہمیت رکھتے ہیں وہ شائد ہی اردو پڑھتے ہوں اور جو ان چیزوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں وہ بہت کم انگریزی سمجھتے ہیں۔ اس لئے میں یہ کوشش کر رہا ہوں کہ دونوں طبقات میری عرض پڑھ اور سمجھ سکیں۔

پہلے میرا مختصر سا پاس منظر کیونکہ آپ میں سے اکثریت مجھے جانتی نہیں ہو گی۔ میں پچھلے پندرہ سال سے انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں پبلک سیکٹر میں پڑھا رہا ہوں۔ جب میں نے پڑھانا شروع کیا تو میری سوچ کچھ یوں تھی:
"انگلش بہت اہم زبان ہے۔ مجھے صرف انگلش میں پڑھانا چاہئے اس کا میرے طلبہ کو بہت فائدہ ہو گا"
پھر مجھے اعلی تعلیم کے لئے ایک ٹاپ یورپین یونیورسٹی کا سکالر شپ ملا (جو ایچ ای سی کا نہیں تھا بلکہ وہیں یورپ کا تھا)۔ اس ملک میں لوگوں کی مادری زبان انگلش نہیں تھی۔ لیکن اچھی بات یہ تھی کہ انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کے لئے پوسٹ گریجویٹ تعلیم انگلش میں تھی۔ وہاں میں نے بہت کچھ سیکھا اور اب میری رائے کچھ یوں ہے:
"کوئی بھی شخص اپنی مادری زبان کے سوا کسی اور زبان میں (کم از کم اپنے پورے پوٹینشل کے مطابق نہیں) ٹاپ ریسرچ یا ایجادات نہیں کر سکتا"۔

جب سے میں واپس آیا ہوں، اب میں اپنے لیکچرز میں اردو کا استعمال زیادہ کرتا ہوں اگرچہ میری انگریزی کی استعداد پہلے سے بہتر ہو چکی ہے۔ اور اس کا میرے طلبہ کو بہت فائدہ بھی ہوا ہے۔ میرے نکتہ نظر میں اس تبدیلی کا پس منظر بھی تھوڑا سا عجیب ہے۔

اس تبدیلی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ فرانس اپنے بچوں کو فرنچ میں، جرمنی جرمن میں، چین چینی میں اور اٹلی اطالوی زبان میں دے کر بھی ترقی کر رہے ہیں بلکہ اس کی وجہ ایرانی طلبہ پر کئے گئے میرے کچھ مشاہدات تھے۔ وہ پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ تھے جن کی پہلے 18 سال (ماسٹرز یا ایم فل تک) کی تمام تر تعلیم فارسی میں ہوئی تھی اور پھر وہ میری یونیورسٹی میں آئے۔ نا صرف یہ کہ انجینئرنگ یا ریاضی مضامین میں وہ ہم پاکستانیوں سے بہتر تھے بلکہ کچھ ہی عرصے میں ان کی انگلش بھی ہم سے اچھی ہو گئی۔ 

میرے لئے یہ بہت ہی تضاد سے بھرپور اور ستم ظریفانہ قسم کی صورتحال تھی۔ ایک طرف پاکستانی سٹوڈنٹس تھے جنہوں نے (اردو میڈیم میں بھی) میٹرک کے بعد تمام مضامین انگلش میں پڑھے تھے۔ دوسری طرف ایرانی تھے جنہوں نے سب کچھ فارسی میں پڑھا تھا۔ چلیں میں پاکستان کی بری تعلیم کی تکنیک کو الزام دے سکتا تھا ہمارے انجینئرنگ میں کم علم کے لئے لیکن کم از کم انگلش صلاحیت تو ہماری ان سے بہتر ہونی چاہئے تھی نا! لیکن وہ بھی نہیں تھی۔ 

اس لئے میں نے ایرانی طلبہ سے گفتگو شروع کی تو مجھے پتا چلا کہ انہیں دو ایسے فوائد حاصل تھے جو ہم پاکستانیوں کے پاس نہیں تھے
1۔ اپنی مادری زبان میں یکساں تعلیم
2۔ انگریزی کو بطور ایک سبجیکٹ (مضمون) پڑھنا بجائے اس کے کہ پورے کورس کو "مشرف بہ انگریزی" کر دیا جاتا۔ وہ داخلے سے محض چھ ماہ پہلے انگریزی پڑھتے تھے لیکن اچھے سے اور اچھے نظام کے تحت پڑھتے تھے

اس سے انہیں اپنے مضمون پر بھی اچھی گرفت حاصل ہوتی تھی اور قابل قبول (لیکن ہم سے بہتر) انگریزی پر دسترس بھی۔ اور پلیز میری بات کا غلط مطلب مت سمجھئے گا۔ میں ہر چیز کا غیر فطری اور زبردستی کا ترجمہ ہرگز نہیں چاہتا۔ مثلا میں یہ نہیں کہہ رہا کہ
This is a speaker
کو اردو میں کچھ یوں لکھا جائے
یہ آلہ مکبر صوت ہے
بلکہ میں اسے اردو میں کچھ یوں لکھوں گا
یہ سپیکر ہے یا
یہ speaker ہے
اسی طرح میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ
Reflection and refraction are the two primary modes of the way light interacts with materials
کا ترجمہ کچھ یوں کیا جائے
"روشنی انعکاس اور انجذاب کی صورت میں چیزوں کے ساتھ تعامل کرتی ہے"
بلکہ میں اس کا ترجمہ کچھ یوں کروں گا
"جب روشنی چیزوں پر پڑتی ہے تو اس سے reflection بھی ہو سکتی ہے اور refraction بھی"

سو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں نا تو ہر چیز کو "مشرف بہ انگریزی"کرنے کے حق میں ہوں اور نا ہی ہر چیز کو اردو میں ڈھال دینے کے۔ یہ طریقہ کار اختیار کرنے سے ہمارے طلبہ کی مضمون کی سمجھ بھی بہتر ہو گی اور ساتھ ساتھ وہ انگریزی اصطلاحات سے اجنبی بھی نہیں رہیں گے اور ہمیں دونوں اطراف کے بہترین فوائد حاصل ہو جائیں گے۔ 

ایک اور چیز جس پر ہمیں فوکس کرنا چاہیے وہ محض یکساں نصاب نہیں بلکہ یکساں نظام امتحان، یکساں ٹیچر کوالیفکیشن، ٹریننگ اور پڑھانے کا طریقہ کار بھی ہے۔ یہ سب حاصل کرنے کے لئے ہمیں کچھ عملی سمجھوتے کرنے پڑیں گے۔ 

ہمیں سکولوں میں تھوڑا زیادہ مذہبی مواد، مدرسوں میں تھوڑا زیادہ سائنسی مواد، میٹرک ایف ایس سی میں تھوڑا زیادہ بیرونی مواد جبکہ لیولز میں تھوڑا زیادہ علاقائی مواد ڈالنا پڑے گا تب ہی تو یہ سب کے لئے قابل قبول ہو گا۔ اس کا سائیڈ افیکٹ یہ ہے کہ ہر شعبے کے لوگ اسے مسترد بھی کر سکتے ہیں (خصوصا انتہا پسند چاہے وہ سیکولر ہوں یا مذہبی) کیونکہ ایسا نظام ان میں سے کسی کی بھی سوچ کا مکمل ترجمان نہیں ہو گا (ویسے یہ لٹمس ٹیسٹ بھی ہے۔ اگر آپ کوئی ایسی بات کریں جس پر مذہبی انتہا پسند آپ کو دین کے خلاف سازش کا الزام دیں جبکہ سیکولر انتہا پسند آپ پر ضرورت سے زیادہ مسلمانی کا الزام لگائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ تقریبا درست راہ پر ہی ہیں)

میں پروفیسر ہود بھائی سے بہت سی باتوں پر اتفاق کرتا ہوں، جیسے ایچ ای سی کی پالیسیوں پر، تعلیم اور ریسرچ کو پیسوں سے متعلق کرنے پر، اپنی موجودہ شکل میں پاکستانی ٹینور ٹریک سسٹم پر وغیرہ (جسے میں نے خود کبھی اختیار نہیں کیا کافی معاشی اور معاشرتی لالچ کے باوجود)، میں ان کی اس بات سے بھی متفق ہوں کہ ایک پروفیشنل ڈگری میں بہت زیادہ مذہبی مواد مثالی صورتحال کی عکاسی نہیں کرے گا لیکن کیا ہم ایک مثالی دنیا میں رہتے ہیں؟ ہرگز نہیں! اور اسی لئے ہماری اپروچ زیادہ عملی اور حقیقت پسند ہونی چاہئے۔ یکساں نصاب کم از کم ایک اچھا آغاز ہے، جب پورا ملک ایک ہی نظام یا نصاب میں سٹیک ہولڈر بنے گا تو وہ خود بخود ایک ارتقائی عمل سے گزر کے مزید بہتر ہوتا چلا جائے گا وقت کے ساتھ ساتھ۔ اس لئے کم از کم اس کا آغاز ہونے دیں، بہتری آتی جائے گی۔

اگر میرا آخری نکتہ آپ کو زیادہ اپیل نہیں کر پایا تو یہ لیں میری پسندیدہ ایک اور مثال پیش ہےفرض کر لیں پاکستان کا ایک شہر ہے جہاں کے لوگ لڑکوں کی تعلیم پر پھر تیار ہو جائیں گے لیکن وہ بچیوں کی تعلیم کے شدید خلاف ہیں۔ تو آپ کے پاس بنیادی طور پر دو ہی راستے ہیں

ایک۔ شور مچانا شروع کر دیں، سکول کھولنے سے انکار کر دیں جب تک کہ لوگ بچیوں کی تعلیم کے لئے بھی تیار نا ہو جائیں یا انتہائی صورتحال میں وہاں کے لوگوں کو تعلیم کی اہمیت بتانے کے لئے فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا جائے
دو۔ مقامی آبادی سے کہیں ٹھیک ہے ہم بچیوں کے نہیں محض بچوں کے سکول کھول دیتے ہیں تو کچھ عرصے بعد وہی بچے شعور ملنے کے بعد خود اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی تعلیم کے لئے آواز اٹھا رہے ہوں گے، اور بغیر کسی لڑائی کے سب کو تعلیم ملنا شروع ہو جائے گی۔

آپ کونسا طریقہ کار پسند کریں گے؟ کم از کم میں تو مؤخر الذکر پسند کروں گا کیونکہ تبدیلی ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک عمل ہے اور عمل ہمیشہ وقت لیتا ہے! شکریہ مجھے اتنے صبر کے ساتھ پڑھنے کے لئے۔

جسٹس قاضی فائز کے بارے میں - About Justice Faiz Qazi

جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کے بارے میں چند پیشگی معروضات

مجھے یاد ہے افتخار چوہدری صاحب"عدلیہ کی آزادی"کی مہم کی قیادت کر رہے تھے اور اعتزاز احسن"ریاست ہو گی ماں کے جیسے" گا رہے تھے، فدوی تب عرض کر رہا تھا کہ یہ ایک غلط آدمی ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ فدوی کی وہ رائے درست تھی اگرچہ دلی ہمدردیاں اس تحریک میں میری بھی ججز کے ساتھ تھیں۔ مشرف کو میں تب بھی غاصب سمجھتا تھا۔ لیکن افتخار چوہدری کا رویہ اور طریقہ کار سائرن بجاتا رہتا تھا۔ خیر بعد میں پورے پاکستان نے دیکھا کہ وہ کیسا المناک سراب ثابت ہوئے، آج جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کے بارے میں بھی میرے لئے نہایت محترم شخصیات نہایت مثبت آراء رکھتی ہیں اور میری ذاتی خواہش ہے کہ میں ان سے اتفاق کروں لیکن مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ایسا کرنے سے خود کو معذور پاتا ہوں:

ایک- جج صاحب کی اپیل کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل (چاہے وہ انسانیت کی ارزل ترین شکل پر ہی کیوں نا ہو) پر ان کے ذاتی اور جذباتی حملے ان کے عہدے اور مقام کے شایان شان نہیں تھے

دو- انٹرنیٹ سے کسی شخص کی مبینہ جائداد کا تقابل اپنی تسلیم شدہ جائداد سے کرنا ہرگز کوئی منطقی و مسکت قانونی رویہ نہیں تھا

تین- قانون میں میرے لئے ایک طرح سے استاد کی حیثیت رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صاحب کی جسٹس صاحب کے بارے میں انتہائی مثبت رائے رکھنے کے باوجود میرے لئے آج بھی یہ ہضم کرنا مشکل ہے کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ میرٹ پر تھا یا اس میں نواز شریف خاندان کو بے انتہا ناجائز قانونی فائدہ نہیں پہنچایا گیا

چار- افتخار چوہدری صاحب کی ذاتی درخواست پر ان کا جج بننا میری ناقص رائے میں ان کا کوئی میرٹ نہیں بلکہ ڈی میرٹ ہے

پانچ- میں یہ بھی نہیں کہتا کہ جج صاحب چور ہیں یا کرپٹ ہیں۔ میرے خیال میں یہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس بچانے کا کیس نکلے گا (جو قانون کی نظر میں جرم ہی ہے لیکن پاکستان کے کاروباری طبقے میں اسے عام روٹین سمجھا جاتا ہے)۔ اور شائد اسی وجہ سے جسٹس صاحب نے حدیبیہ و دوسرے کیسز میں وہ تمام کمنٹس دیئے جو بعد میں ان کے کیس کے ساتھ بھی خاصی حد تک مطابقت رکھتے تھے

چھ- جج صاحب کا ایک اور ذہنی و نفسیاتی رویہ خبط عظمت میں مبتلا ہونے کا ہے۔ یہ رویہ میں نے آج تک جس میں بھی دیکھا ہے وہ کوئی مثبت شخصیت نہیں نکلی۔ چاہے وہ وقاص گورایا ہو یا سلمان حیدر یا ماروی سرمد یا گل بخاری یا افتخار چوہدری یا جسٹس شوکت صدیقی وغیرہ وغیرہ۔ قاضی صاحب کا رویہ، عمل اور طرز عمل سب نہایت جذباتی اور مخاصمانہ رہے ہیں۔ کل ہو سکتا ہے وہ چیف جسٹس بھی بنیں تو ایسے رویے کے اظہار کے ساتھ وہ اپنی منصفی کے تقاضوں پر پورا اتر سکیں گے؟ فدوی بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں پاتا ہے

سات- جج صاحب یا ان کی اہلیہ محترمہ دونوں نے جذباتی بیانات تو خوب دیے ہیں مگر سات لاکھ پاؤنڈ ایک خطیر رقم ہے۔ یہ گلے یا گُجے یا گھڑے میں نہیں جوڑی گئی ہو گی۔ جج صاحب کی اہلیہ خود کہہ چکی ہیں کہ وہ میرے اپنے وسائل سے حاصل کردہ رقم تھی۔ مطلب جج صاحب کی لا فرم کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اور بیگم صاحبہ کا کوئی کاروبار نہیں تھا۔ تو لازمی یہ رقم کسی فائنانشل ٹرانزیکشن کے نتیجے میں آئی ہو گی۔ بیگم صاحبہ نے تمام دستاویزات دکھا دیں یہی ایک دستاویز نہیں دکھائی۔ اشارتاً بھی اس کے بارے میں بات نہیں کی۔ حالانکہ پورے کیس کی جڑ ہی ان منی ٹرانزیکشنس کی منی ٹریل ہے اور تو کیس کچھ ہے ہی نہیں

آخری بات یہ ہے کہ جج صاحب کے فوج کے خلاف کھڑے ہونے پر انہیں کھڑے ہو کر سات سرخ سلام۔ اگر وہ واضح اور صاف منی ٹریل بھی پیش کر دیں جذباتی ڈائیلاگز کی بجائے تو پوری قوم انہیں چودہ سرخ سلام پیش کرے گی۔ بصورت دیگر ایک اور افتخار چوہدری اس بدقسمت قوم کی زندگی میں آنے والا ہے- پیشگی لکھ کے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا تا کہ مستقبل میں اپنے محترم دوستوں کو اس کا حوالہ دیا جا سکے جیسے آج بھی افتخار چوہدری کے بارے میں میری آراء اپنے کالج کی المنائی کے یاہو گروپ پر موجود ہیں جو فدوی نے 2007-8 میں دی تھیں


MQM and PTI

ایم کیو ایم اور تحریک انصاف

میرے ایک دوست نے مندرجہ ذیل نکتے اٹھائے ہیں، پلیز کوئی بھائی مجھے ان کا نکتہ وار جواب دیں تا کہ میں اس کے منہ پر مار سکوں- وہ ہر وقت کوشش کرتا رہتا ہے نون لیگ اور باقی جماعتوں کو غلط اور صرف تحریک انصاف کو درست ثابت کرنے کی، شکریہ

ان لوگوں کے لئے جو ایم کیو ایم کی ہڑتالوں کا تحریک انصاف کی ہڑتالوں سے تقابل کر رہے ہیں

- ایم کیو ایم نے کتنی بار ہڑتال کرنے سے پہلے ڈیڑھ سال تک عدالتی نظام سے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی؟

- ایم کیو ایم نے ہڑتال کرنے سے پہلے کتنی بار انصاف کی تلاش میں سو دن کا دھرنا دیا ہے؟

- ایم کیو ایم نے ہڑتال کرنے سے پہلے کتنی بار ملکی سطح پر تقریبا ہر چھوٹے بڑے شہر میں تاریخ کے سب سے بڑے جلسے کیئے ہیں انصاف کے لئے؟

- ایم کیو ایم کے قائد نے کتنی بار عوام سے محض "ایک دن" کے کچھ گھنٹوں کی ہڑتال کے لئے معذرت کی ہے؟

- ایم کیو ایم کی ہڑتال آج تک کتنی بار بغیر کسی قتل و غارت اور لاشیں گراۓ بغیر سو فیصد پرامن انداز میں ختم ہوئی ہے؟

- ایم کیو ایم نے آج تک کتنی بار دھاندلی جیسے قومی مسلے پر ہڑتال کی ہے؟

- یاد رہے دھاندلی تحریک انصاف کا ایشو نہیں پاکستان کا ایشو ہے- جمہوریت میں لٹیروں کو سزا دینے کا واحد پرامن طریقہ الیکشن ہیں اور اگر وہی صاف و شفاف نا ہوں تو جمہوریت ختم ہو جاتی ہے-

- وہ لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کی دھاندلی کے بارے میں بات کیوں نہیں کی وہ اپنے تعصب میں یہ بھول رہے ہیں کہ جب بھی دھاندلی کی انکوائری شروع ہوئی تو وہ صرف پنجاب یا نون لیگ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ وہ سندھ، کراچی، کے پی کے اور بلوچستان میں بھی ہو گی- اس لئے اس اعتراض کی کوئی منطقی وقعت باقی نہیں رہتی- یہ تحریک انصاف کی تزویراتی چال تو کہلائی جا سکتی ہے مگر اس کی وجہ سے آپ کوئی الزام تراشی نہیں کر سکتے

- اسی مشترکہ خطرے کی وجہ سے تمام جماعتیں سسٹم اور جمہوریت بچانے کے نام پر متحد ہو گئی ہیں تا کہ سٹیٹس کو نا ٹوٹ سکے- ایک بات اور یاد رہے کہ دھاندلی ہمیشہ وہ جماعتیں کروا سکتی ہیں جو الیکشن سے پہلے حکومت کر چکی ہوں، ہر ادارے میں اپنے بندے گھسا چکی ہوں، جو جماعتیں حکومت میں نا ہوں ان کے خلاف دھاندلی ہوا کرتی ہے اور اگر وہ اس کے باوجود جیت جائیں تو وہ اپنے خلاف ہونے والی دھاندلی کے باوجود الیکشن جیتتی ہیں- گزشتہ انتخابات میں ایسی جماعتوں کی مثالیں کے پی کے میں تحریک انصاف کی سیٹیں ہیں

- الطاف بھائی کی مجبوری تھی کہ معاملات پرتشدد رخ اختیار نا کریں کیونکہ انکو یاد تھا کہ گیارہ مئی کو ہونے والے احتجاج کے بعد لندن بھی ان کے لئے محفوظ نہیں رہا تھا- تحریک انصاف کے بیرون ملک موجود پڑھے لکھے سپورٹرز نے لندن میٹرو پولیس میں کالز کر کر کے جو حشر کیا تھا وہ ابھی بھولے نہیں ہوں گے بھائی صاحب

-ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر کراچی میں کوئی بھی جلسہ یا ہڑتال بھائی کی آشیرباد کے ساتھ ہوتی ہے تو پھر لاڑکانہ کا جلسہ پیپلز پارٹی، لاہور، فیصل آباد اور گجرانوالہ وغیرہ کے جلسے نون لیگ کی آشیر باد اور مولانا فضل الرحمن کے سگے بھائی اور بیٹے کا اپنی آبائی سیٹ ہار جانا مولانا فضل الرحمن کی آشیر باد اور میاں صاب کا ہزارہ میں ہونے والا جلسہ تحریک انصاف کی آشیر باد اور جماعت اسلامی کا کراچی میں گزشتہ اور آئندہ ہونے والا جلسہ ایم کیو ایم کی ہی آشیرباد کے ساتھ ہو گا

- آخری نکتہ یہ ہے کہ کیا عوام نے ایم کیو ایم کی ہڑتالوں کے دوران لاشیں اور تحریک انصاف کی خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر ہڑتال میں فرق محسوس نہیں کیا ہو گا؟ اس کا دور رس اور حقیقی فائدہ ایم کیو ایم کا ہو گا یا تحریک انصاف کا؟ گزشتہ انتخابات میں تمام تر زور، زبردستی اور جبر کے باوجود کراچی کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف بن کر ابھری ہے- کیا ایم کیو ایم کبھی بھی اپنے وجود کی ضامن انتخابی مناپلی کو برضا و خوشی خطرے میں ڈالے گی؟

Answer to Javed Chauhdry

جاوید چوہدری صاحب  کے جواب میں

کل سے غیر جانبداری کے پردے میں لپٹے لوگوں کی جاوید چوہدری کے تازہ ترین کالم پر خوشیاں اور قلابازیاں دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکا ہوں- میں چاہتا تو نہیں تھا کہ لکھوں، نا موڈ تھا نا دلچسپی - مگر ابھی لکھنے لگا ہوں کیونکہ لگ کچھ ایسا رہا ہے کہ لوگ ان کو ضرورت سے کچھ زیادہ سنجیدگی سے لے رہے ہیں- باقی سارے کالم کو چھوڑ دیں، میں صرف ان کے اعتراضات کے جواب دوں گا- نوٹ کیجئے گا کہ مجھے جاوید چوہدری صاحب کی طرح بات کو گھمانا، پھرانا  نہیں آتا- سیدھی ٹو دا پوائنٹ بات کروں گا- اس کالم کو پڑھنے سے پیشتر آپ جاوید چوہدری صاحب کا کالم پڑھ لیں تو بہتر سمجھ پائیں گے مجھے-

ایک- آپ نے فرمایا کہ عمران خان نے ملک کے طبقہ اشرافیہ کو ایک دوسرے کے مخالف کے رتبے سے ہٹا کر ایک کر دیا اور وفاق کمزور ہو گا وغیرہ وغیرہ- یہ عمران خان کی زیادتی نہیں بہت اچھا کام ہے کہ اس نے سیاست کو مذہب، فرقے اور صوبائی تعصب سے نکال کر ایک نظرئیے کی بنیاد پر تقسیم کر دیا ہے- ایک طرف عشروں سے پاکستان پر حکومت کرنے والے اور جمہوریت کو خطرہ ہے کہہ کر عوام کو بیوقوف بنانے والے اور دوسری طرف وہ جو ارتقا کے نام پر جوہری تبدیلی سے خوفزدہ – اس چیز کو ایک انگریزی سطر میں بہت اچھا بتایا جا سکتا ہے

It is better to be divided on the basis of supporting and opposing the ideology of PTI rather than being divided on the basis of sects, ethnicities, provinces etc

دوسری چیز عوام بڑے غور سے دیکھ رہی ہے کہ کیسے ایک دوسرے کو چور، ڈاکو اور لٹیرے کہنے والے اپنے اقتدار اور مفاد کی خاطر اکھٹے ہو گئے ہیں- مستقبل قریب میں اس سے ملک مضبوط ہو گا کمزور نہیں – اور ویسے وفاق تب کمزور ہوتا ہے جب اس کی اکائیوں کو حقوق نا ملیں-

دو- آپ نے فرمایا کہ چونکہ سب دوسری سیاسی جماعتیں اکھٹی ہو چکی ہیں اس لئے آئندہ الیکشن اصلاحات مولانا فضل اور نواز شریف جیسے لوگ فرمائیں گے-عمران خان کو ساڑھے پانچ مطالبات مان کر واپس چلے جانا چاہئے- پہلی بات تو یہ کہ پہلے حکومتی اصلاحات  کا متن پڑھ لیں تا کہ آپ کو سمجھ آ جاۓ کہ دراصل ساڑھے پانچ تو کیا آدھا مطالبہ بھی نہیں ما نا گیا-دوسری بات حضور  آپ الیکشن اصلاحات کے سلسلے میں شدید غلط فہمی کا شکار ہیں-  مستقبل کس نے دیکھا ہے؟ یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ یہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہے گا- ایک بار پھر انگریزی کی مدد لے کر اس کا اردو ترجمہ بھی کروں گا

Biggest Reform = Punishment to those involved in Rigging in Elections 2013

It is not the law which deters people but implementation of it which does

سب سے بڑی الیکشن اصلاحات = ان لوگوں کو سزائیں جنہوں نے گزشتہ الیکشن میں دھاندلی میں حصہ لیا

سخت سے سخت قانون بھی جرائم کی حوصلہ شکنی نہیں کر سکتا جب تک کہ اس پر عملدرآمد یقینی نا ہو

تین- آپ عمران خان سے بصد شوق اختلاف کریں، مگر اب نکو نک آئی ہوئی اس قوم سے یہ توقع مت کریں کہ آپ عمران خان پر تنقید کر کے نواز شریف جیسے لوگوں کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کریں تو کوئی آپ سےاختلاف نہیں کرے گا- میرے پورے جواب میں اب تک کوئی گالی نظر آئی ہے آپ کو؟ ہاں اگر آپ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کریں تو ایسے منطقی ردعمل کو آپ گالی کا نام دے دیں تو جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے- ویسے افسوس ہے اس شخص پر جو قتلوں کو گالیوں سے سے بہتر سمجھے- جو قوم کے ووٹ کی توہین پر تو جمہوریت خطرے میں ہے کہہ کر سادھو بن کر بیٹھا رہے مگر دھاندلی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو مطعون  کرے- جو وجہ(Cause) کو تو نظر انداز کر دے مگر نتیجے (Effect) کو پیٹتا رہے

چار- جتنے واقعات آپ نے بیان کئے ہیں یہ سب قوم کی بے عملی اور بزدلی کا ثبوت تھے- ایک زندہ قوم اپنے محبوب لیڈر کی قانون کے خلاف پھانسی پر کھڑی ہوتی ہے اور علم احتجاج بلند کرتی ہے- عمران خان کی اس مہم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ آئندہ کوئی سی ایم اقتدار کے نشے میں نہتے شہریوں کو قتل کرنے کا حکم نہیں دے گا، دھاندلی کرنے سے پہلے سو بار لوگ سوچیں گے- حضور قانون کی پابندی ہمیشہ عوام کرواتی ہے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ کر- آپ اسے قانون کی کمزوری سمجھتے ہیں اور میں اسے ہی قانون کی سربلندی سمجھتا ہوں کہ آئندہ جب بھی کوئی شخص قتل کر کے حکومت چلانے کی کوشش کرے گا تو نہیں کر سکے گا- اگر عمران خان دھاندلی کی شفاف انکوائری کروانے میں کامیاب ہو گیا انشا الله آئندہ الیکشن ایسا ہوگا جس میں ایک ایک ووٹ کی بائیو میٹرک طریقہ کار سے تصدیق ممکن ہو گی ورنہ اگلے الیکشن میں بھی دھاندلی کا رونا سنتے رہیں گے آپ

پانچ- آپ کے بقول عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو پھر سیاست میں گھسیٹ لیا ہے- حضور عمران خان نے نہیں ان قانونی اور آئینی بزرجمہروں نے گھسیٹا ہے جو پندرہ ماہ تک عمران خان کی انتہائی شرافت سے کی گئی چار حلقے کھولنے کی ڈیمانڈ کا مذاق اڑاتے رہے اور نہیں مانے- اس کو ایک کے بعد دوسری "ٹرک دی بتی " کے پیچھے لگاتے رہے- آپ جیسے لوگوں کی وہی سوچ ہے کہ کسی کے دو بھائی قتل ہو جائیں اور ایف آئی آر تک نا کٹے تو آپ بولیں گے احتجاج مت کرو نہیں تو وہ تمھارے باقی کے چار بھائیوں کو بھی قتل کر ڈالیں گے- سلام ہے آپ کی سوچ کو حضور

چھ- آپ کے بقول عمران خان نے قوم پرستوں کو مضبوط کیا- حضور عمران خان نے ان سب کو کمزور کیا ہے اسی لئے تو یہ سب بھانت بھانت کی جماعتیں اکھٹی ہو گئی ہیں کیونکہ عمران خان نے ان لوگوں کی روزی پر لات ماری ہے جو مذھب، فرقے اور صوبائیت کی سیاست کرتے تھے- عمران خان پنجاب کا ضرور ہے مگر اس کے ساتھ سب سے ایکٹو لوگ پختون خواہ سے بھی ہیں، پنجاب سے بھی، کراچی سے بھی اور بلوچستان سے بھی- بڑے عرصے بعد پاکستان کو ایسا لیڈر نصیب ہوا ہے جس کی حیثیت قومی ہے نا کہ زرداری  اور نواز شریف کی طرح صوبائی- باقی سب لیڈر تو علاقائی بھی نہیں ہیں محض کسی تعصب پر اپنا سودا بیچتے پھرتے ہیں

سات- آپ کے بقول عمران خان نے قوم کو یہ راستہ دکھایا ہے کہ کوئی بھی شخص چند ہزار لوگوں کا جتھہ لے کر آ جاۓ، چاہے طالبان آ جائیں  اور جو مرضی منوا لے- حضور کیا آپ نے یہ کالم خود لکھا ہے؟ چلیں زیادہ نہیں بولتا پھر آپ نے گالی کا الزام لگا دینا ہے- آپ کو صرف اتنا بتا دیتا ہوں  کہ اگر الیکشن میں تمام تر دھاندلی کے باوجود اگر طالبان بھی بلحاظ ووٹ  پاکستان کی دوسری سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آتے ہیں  تو ان کا بھی حق ہو گا کہ وہ اپنے حقوق کے لئے پرامن انداز میں احتجاج کریں- آخر کار آئین میں یہ احتجاج کا حق قوم کو چاٹنے کے لئے تو نہیں دیا گیا نا؟ اس کا کچھ استعمال ہے !

آٹھ- آپ کے بقول عمران خان کے اس قدم کے بعد  تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہوئی ہے –عرض ہے کہ ہم عمران خان سے خوش ہیں اور تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھی ہے کم نہیں ہوئی- آپ کی قیمتی راۓ اور ہمدردی کا شکریہ

نو- آپ کے بقول عمران خان سمجھتے ہیں کہ صرف وہ ایماندار ہیں باقی سب چور ہیں- تو یہ آپ کی سمجھ کا قصور ہے- اور آپ پچھتر لاکھ لوگوں (دراصل کروڑوں) کے لیڈر پر بہتان لگا کر تہمت کے مرتکب  ہوۓ ہیں- آپ کو یاد کرواتا چلوں کہ ہماری قوم کی اخلاقی حالت قائداعظم کے وقت بھی وہ تھی کہ ان کو کہنا پڑا تھا میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں-

Answer to 10 Truths by Zahid F Ebrahim

A very senior and respected writer Mr. Zahid F Ebrahim wrote a beautiful piece about 10 myths of 2013 elections. Here below you may find my humble and respectful reply to him.

1) Election tribunals have failed to decide cases — Around 410 election petitions were filed by losing candidates before the 14 election tribunals established across the country. As of last month, 292 petitions, i.e., 73 per cent of all cases, have already been decided by election tribunals. This is unprecedented when compared with the disposal rate of election tribunals in previous elections.
Answer: There is a huge difference in auditing the polling in those constituencies and dismissing the petitions on TECHNICAL basis. You could dismiss all petitions and your resolution rate would become 100%

2) Judges of election tribunals were appointed under a faulty process by a biased Election Commission of Pakistan — In previous elections, high court judges were burdened with the responsibility to decide petitions after completing their usual day’s work. Now, election tribunals are manned by retired judges, whose only work is to decide election cases. The ECP did not appoint these judges. Each of the election tribunal judges were proposed by the respective chief justices of the provincial high courts.
Answer: The author simply mentioned that 'retired judges' have been appointed this time as if it made the process correct. He should have instead focused on what exactly was the process to appoint those judges? 

3) Election tribunals are purposely going slow — It is correct that election tribunals were not able to meet the 120-day deadline to decide cases. One reason for the delay is the attitude of many losing candidates. Take for example the case of petition number 344 of 2013, Usman Dar vs Khawaja Asif. In its decision, the tribunal wrote: “The way the petitioner avoided to enter the witness box and disregarded the directions of this tribunal on the pretext of business tour abroad, provides a basis to infer that he was/is no more interested in the matter. Costs of adjournments to the tune of Rs30,000/- have not been paid by the petitioner till date. It appears that after filing the election petition, the petitioner lost interest in the election dispute and then attempted to prolong the trial … the petitioner failed to prove the allegations … (and) the election petition is found to be without any merit and is accordingly dismissed … .”
Answer: It is very easy to dismiss a petition on such technical terms as explained already in point 1 above. This is precisely what is wrong. If someone could not attend ONE hearing, does he lose the right to justice? This argument infact itself proves to be in favor of the argument that Election Tribunals are biased. 

4) If election tribunals decided the PTI’s cases, the PML-N government would collapse — The PTI candidates filed a total of 58 petitions challenging National and provincial assembly elections in various constituencies. Of these, 39 petitions, i.e., 70 per cent have already been decided by the election tribunals. Unfortunately for the PTI, none of the 39 cases were successful. Now, only 19 PTI petitions remain to be decided. Even if each of these is decided in the PTI’s favour, it will not dent the overall election result.
Answer: Even if PTI loses all seats, we are least  bothered. This is again a self-defeating argument. We want to ensure that elections were free, fair and transparent irrespective of who stays in government and who doesn't. It is not about number game, it is about fairness of the process. If elections were fair, why can't we have their audit? A simple question

5) Election tribunals are favouring the PML-N — Thus far, 10 elected parliamentarians of the PML-N have been unseated by the election tribunals. This is the highest number of decisions against any political party. Judgments in only two petitions have gone against PTI candidates. Independent candidates are the biggest winners thus far with eight cases in their favour, followed by the PPP at six.
Answer: This proves nothing. When PML-N won many seats, its losing percentage would obviously be in accordance with that. And do not forget the principle of: "Lets punish a few to make the process look credible"

6) If the government has nothing to hide, then why is it refusing to open the cases of four seats demanded by the PTI — The election results on the four National Assembly seats, i.e., NA-110, NA-122, NA-125 and NA-154 have already been opened and are subjects of judicial inquiry by the election tribunals, which are the only forum for opening disputed results of any election. The government has no role to play here.
Answer: What took Election Commission 14 months to open and decide these cases? Why not even a single of these constituences demandaed by PTI right from the start have been decided? Why? Why so much delay? Do they want to complete 5 years and then the results will be announced? How does opening up and not decising the cases for so long proves that election commission is fair? I wonder!

7) Unprecedented rigging on four seats — NA-110 was one of the four seats cited for election rigging. According to FAFEN, the number of electoral violations in NA-110 is zero. Compare this with NA-1, where Imran Khan won the election. The electoral violations here are listed as 58 by FAFEN. The point is not that the NA-1 result was manipulated simply because FAFEN listed these violations. The point is that there were approximately 90,000 polling stations across the country. Electoral law violations in some of these, deplorable as they may be, do not make these a rigged parliament.
Answer: Once again, whether Imran Khan won or lost if electoral violations occured, how many have been punished? Has the responsibility been fixed? What about thumb audit of NA 110?

8) The PML-N rigged elections to defeat the PTI’s Jahangir Tareen — NA-154 is another one of the four seats. Here, the PML-N is blamed for stealing Tareen’s victory. But it is interesting to note that the PML-N candidate here also lost the election. The winner was an independent candidate, Mohammad Siddik Baloch. If the PML-N wanted to rig this seat, why would its candidate come a distant third?
Answer: Once again, that constituency has been opened and so far gross anomalies have been found. Whether PML-N did it or someone else did it, where are the culprits? Where are the punishments?

9) Even the PPP supports the demand to reopen result of four constituencies — The PPP is happy that the PTI is focusing attention solely on Punjab. The PPP lost a large number of safe seats in Punjab. Although this has happened before, this time, the loss threatens its very existence in Punjab. In the famous four constituencies, the PPP received an abysmal one per cent, 1.6 per cent, 2.9 per cent and five per cent of total votes cast and its candidates lost even their security deposits. Therefore, how can the PPP resist the opportunity to help de-legitimise the election results in these constituencies?
Answer: PTI's major vote share was from Punjab and KPK so its natural that PTI would focus more on Punjab. Some rocket science? PPP will obviously support it because it does not affect them. How does it prove innocence of Election Commission and fairness of elections? And by the way, a PML-N candidate who was at 6th position in an NA constituency in KPK has done the same.

10) The PTI exhausted all forums provided by law before coming on the streets — The Representation of Peoples Act provides that the forum to contest election results is the election tribunals. Around 73 per cent of all cases have already been decided by them. Anyone aggrieved by their decisions can file an appeal in the Supreme Court as mandated by law. Rule of law is not just an empty slogan to be raised in public rallies and television talk shows. It is the foundation which we must abide by if we are to build a modern and stable Pakistan.
Answer: Do not hide behind legal complexities. If legal channels were so binding and necessary then why were judges not restored using the same legal channels? Why PML-N and PTI had to come on roads for their restoration? This is a question of paramount importance in a democracy: Fairness of Elections and it requires ultimate measures at any cost. If judges could be resoted out of parliament and court when judiciary was just a pillar of the democracy, why can't true democracy (which results only after fair elections) be restored using the same principle and route?

And now comes the icing on the cake:
1. Why have Forms XIV (on the basis of which results are declared) not yet been made public? Thats the primary document using which political parties verify the count and turn out with their own data tables!
2. Why were polling schemes of more than 90 constituences changed one night before elections?
3. Why was trained polling stafff replaced with untrained political staff days before elections without informing anyone?
4. These elections were conducted on the premise that there would be magnetic ink through which each thumb of voters would be verifiable. This is why many parties including PTI agreed to election and its procedures. When even that was absent and it was not even announced until PTI demanded for thumb verification, where does this whole process stand? Virtually in hell and thats precisely where this Nincompoop Govt along with Nincompoop election commission stands!
By the way, has anyone been punished so far for above very obvious and gross violations of election law?

Source Article: http://tribune.com.pk/story/743813/ten-truths-about-electoral-rigging/#.U-LNdO5Pekc.facebook

Supplementary Article with proofs from neutral bodies about election rigging: http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?271188-Rigging-in-2013-Elections-With-Irrefutable-Proofs

Total Pageviews

Popular Posts