Showing posts with label Other Articles. Show all posts
Showing posts with label Other Articles. Show all posts

Reality of Propaganda of PMLn against Judiciary

تحریر: عامر ہاشم خاکوانی

 کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں سپریم کورٹ پر ایک ہی بار فزیکل حملہ کیا گیا، جب ایک سیاسی جماعت کے سینکڑوں کارکنوں نے سپریم کورٹ پر ہلہ بول دیا اور چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کو بھاگ کر ریٹائرنگ روم میں پناہ لینا پڑی اور وہاں سے وہ بمشکل نکل پائے ورنہ ہجوم کے ہاتھ زخمی ہوجاتے ۔ 

  وہ جماعت مسلم لیگ ن ہے۔ یہ واقعہ انیس سو ستانوے کا ہے جب وزیراعظم نواز شریف تھے اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔ 

    کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ایک واقعہ ایسا ہے جب وزیراعظم کے خصوصی مشیر نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ایک اور جج کو فون کر کے کہا کہ وزیراعظم کے مخالف سیاستدان کو فوری سزا سنائی جائے۔ 

  وہ فون ٹیپ ہوگیا اور بعد میں منظر عام پر آنے پر ان دونون ججوں کو استعفا دینا پڑا۔ 

  جی اس واقعے میں بھی ن لیگ ملوث تھی۔ سیف الرحمن فون کرنے والا تھا جبکہ ملک قیوم اور ایک اور جج کو استعفا دینا پڑا تھا۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک پارٹی کے سربراہ کی اسمبلی توڑی گئی اور پھر بحال ہوئی اور پھر بحال کرنے والے ججوں کے بارے میں اس وقت کی اپوزیشن لیڈر جو ایک سابق وزیراعظم بھی تھیں، انہوں نے بیان دیا کہ (پیسے کی )چمک کام دکھا گئی۔ 

  جی وہ بھی ن لیگ کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔ وہ واحد ایسے خوش نصیب سیاستدان ہیں جن کی توڑی ہوئی اسمبلی بحال کی گئی۔ اسے جسٹس نسیم حسن شاہ نے بحال کیا تھا، جن پر ن لیگ کے طرفدار ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ کارروائی کر رہی تھی، اچانک ایسا جادو چلا کہ سپریم کورٹ منقسم ہوگئی اور بعد مین وہ مخالف چیف جسٹس ہی کو جانا پڑا۔ بعد میں کہا گیا کہ اس وزیراعظم کے اشارے میں ایک سابق جج بریف کیس لے کر کوئٹہ گئے اور جوڑ توڑ کیا۔ 

  کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سابق جج کو بعد میں حیران کن طور پر صدر مملکت بھی بنایا گیا۔ ان کا نام رفیق تارڑ تھا ، وہی جن کا نواسا عطا تارڑ آج کل ن لیگ کا کرتا دھرتا رہنما ہے۔ 

  جبکہ وہ وزیراعظم بھی نواز شریف تھا۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک سابق وزیراعظم کو صڑف پچاس روپے کے سٹامپ پیپر پر ایک خالی خولی یقین دہانی کے بعد باہر جانے دیا گیا اور وہ پچھلے ساڑھے تین برسوں سے واپس نہیں لوٹا۔  تب حکومت نے عدالت کو کہا تھا کہ اس سے چند ارب یا چلیں کروڑوں کا بانڈ بھروائیں، واپس نہیں آئے گا۔ عدالت نے ایسا نہ کیا اور وہ سابق وزیراعظم آج لندن میں بیٹھا مزے سے کافی پیتا ، آئس کریمیں کھاتا گھومتا پھرتا ہے اور ایک بار بھی اپنی اس نام نہاد پیچیدہ بیماری کے علاج کے لئے ہسپتال داخل نہین ہوا۔ 

 جی اس کا نام نواز شریف ہے۔ 

  کیا آپ جانتے ہیں کہ صرف دو ڈھائی سال پہلے ایک سابق وزیراعظم کے بھتیجے اور سابق وزیراعلیٰ کے بیٹے کی ضمانت ایک جج صاحب نے اتوار کے روز لے لی اور ہرگز یہ نہیں کہا کہ حفاظتی ضمانت کے لئے ملزم کو عدالت میں پیش ہونا ضروری ہے۔ 

  جی وہ ملزم حمزہ شہباز شریف تھا۔ ضمانت لینے والے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاسم خان تھے۔ وہی صاحب جو ن لیگ کے چہیتے رہے ۔ 

 کیا آپ جانتے ہیں کہ انہی جسٹس قاسم خان صاحب نے احتساب عدالت کے ریٹائر ہوجانے والے ججوں کی جگہ نئے جج تعینات نہ کئے، مہینوں تک وہ سیٹیں خالی رہیں، عدالت میں کیسز آگے نہ بڑھے اور پھر اسی بات کو بنیاد بنا کر ان ملزموں (جی وہ سب ن لیگی لیڈر تھے ) کی ضمانت لے لی کہ نیب ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی اور یہ کئی ماہ سے اسیر ہیں۔ نیب چیختی چلاتی رہی کہ ان ججوں کو آپ نے مقرر کرنا تھا، اگر نہیں کئے اور وہ عدالتیں خالی تھیں تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک سابق چیف جسٹس ایسا بھی تھا جس نے نوے کے عشرے میں ن لیگ سے کونسلر کا الیکشن لڑا۔ ن لیگ نے اسے ہائی کورٹ کا جج بنادیا اور وہ بعد میں خاصا عرصہ چیف جسٹس بھی رہا۔ ان کانام خواجہ شریف تھا۔ 

  جی صاحبو! یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں اور بے شمار واقعات موجود ہیں۔ اتنے کہ بہت سے لکھے نہیں جا سکتے، زبانی سنائے جا سکتے ہیں۔ بعض لکھتے لکھتے میں تھک جائوں گا۔ جس سابق چیف جسٹس نے اسمبلی بحال کی تھی، اس کا ایک حیران کن واقعہ ایسا ہے کہ لکھوں تو یقین نہیں آئے گا۔ چلیں رہنے دیتے ہیں۔ کبھی ملاقات ہوئی تو زبانی بتائوں گا۔ راوی اس کا ن لیگ کا نہایت سینئر اور معتبر حامی صحافی ہے۔

   آج جب مریم نواز شریف چیخ چیخ کر جلسوں میں جھوٹے الزامات لگاتیں اور صاف جھوٹ بولتی ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ 

  اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت 

  دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ  

والا شعر سنانے کو جی چاہتا ہے

New Army Chief Selection


ایک وزیرِاعظم اور مشیر کا مکالمہ

آخری وقت اشاعت:  اتوار 6 اکتوبر 2013 , Published on BBC

وزیرِاعظم: کیا کریں ؟

مشیر: فیصلہ تو آپ ہی کو کرنا ہے سر جی۔

وزیرِاعظم: صبح سے بار بار یہ تین تصویریں الٹ پلٹ کر دیکھ چکا ہوں، سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کروں۔

مشیر: کیا سمجھ میں نہیں آ رہا سر جی؟

وزیرِ اعظم : یہ دیکھو تصویر نمبر ایک۔ ناک نقشہ تو ٹھیک ہے مگر آنکھیں چھوٹی ہیں۔ابا جی نے کہا تھا کہ چھوٹی آنکھ والے پر ہمیشہ آنکھ رکھنا اور یہ تصویر نمبر دو، اس کا چہرہ بالکل سپاٹ ہے بالکل چینیوں کی طرح۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ میرے بارے میں کیا ، کیسے اور کیوں سوچتا ہے ؟ اور یہ رہی تصویر نمبر تین، مسکراتا چہرہ ہے لیکن چہرہ تو ضیا صاحب مرحوم و مغفور کا بھی ہمیشہ مسکراتا ہی رہتا تھا اور پھر انہوں نے مسکراتے مسکراتے ہی بھٹو صاحب کی۔۔۔

مشیر: تو پھر جیسے آپ کا حکم ؟

وزیرِاعظم : تیسرے کے بعد چوتھا ، پانچواں ، چھٹا اور ساتواں بھی تو ہوگا۔ذرا ان کی تصویریں منگواؤ۔

مشیر: سر جی تصویریں ریکارڈ سے نکلوانے میں دیر لگے گی۔ میں آپ کو ویسے ہی ان کا ناک نقشہ سمجھا دیتا ہوں۔ چوتھا دُور کا چشمہ لگاتا ہے ۔

وزیرِاعظم: ایک منٹ، دور کا چشمہ تو مشرف بھی لگاتا تھا ؟

مشیر: جی سر۔

وزیرِاعظم: تو پھر دفع کرو۔ پانچویں کے بارے میں بتاؤ۔

مشیر: سر پانچواں کلین شیو ہے مگر پڑھتے وقت قریب کا چشمہ لگاتا ہے۔


وزیرِاعظم: یعنی جہانگیر کرامت کی طرح ؟؟؟

مشیر: جی سر۔

وزیرِاعظم: چلو آگے بڑھو ۔

مشیر: سر چھٹے کی دور اور نزدیک کی نظر ٹھیک ہے مگر مونچھیں ہیں۔

وزیرِاعظم: مونچھیں ؟ کیسی مونچھیں ؟ ضیا الحق مرحوم و مغفور جیسی ، کاکڑ جیسی یا ضیا الدین جیسی ؟

مشیر: سر کاکڑ صاحب سے ملتی جلتی ۔

وزیرِاعظم : آر یو شور کہ ضیا الدین جیسی نہیں ہیں ۔

مشیر: نو سر، لیکن آپ چاہیں تو ہم اسے ضیا الدین جیسی کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔

وزیرِاعظم: نہیں کوئی فائدہ نہیں۔اندر سے تو وہ پھر بھی چھوٹی مونچھوں والا ہی رہے گا نا ۔۔اور ساتواں ؟

مشیر: سر جی ساتویں کی کچھ سمجھ نہیں آتی ۔اسے کبھی کسی نے غصے میں نہیں دیکھا۔ہر وقت چہرے پر فلاسفروں جیسی مسکراہٹ رہتی ہے۔ آپ کا ذکر آجائے تو مسکراہٹ اور گہری ہوجاتی ہے۔

وزیرِاعظم : کیا مطلب اس بات کا؟ کیا وہ مجھے پسند کرتا ہے یا بےوقوف سمجھتا ہے۔

مشیر: سر یہی تو پتہ نہیں چلتا ۔

وزیرِاعظم :ہوں۔۔۔تو پھر بتاؤ کیا کریں ؟

مشیر: سر میری مانیں تو سب کے نام برتن میں ڈال کر کسی بچے سے ایک پرچی اٹھوا لیں۔

وزیرِاعظم : لیکن اگر پرچی پر ان ساتوں میں سے کسی کا نام آگیا تو کیا کریں گے ؟

مشیر: سوری سر۔۔۔یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔

وزیرِاعظم : میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا ہے۔ ذرا اسے ایکسپلور کرو۔تمہیں یاد ہے کہ دو سال پہلے تین ریٹائرڈ افسروں پر جب کرپشن کا الزام لگا تھا تو ان کی ریٹائرمنٹ ختم کر کے انہیں حاضر سروس کر لیا گیا تھا تاکہ اندر خانے ہی ان کا کورٹ مارشل کرسکے ؟

مشیر: جی سر ایسا ہوا تو تھا ۔

وزیرِاعظم : تو پھر کیوں نہ ہم کسی ریٹائرڈ افسر کو دوبارہ حاضر سروس کر کے اس کا نام ایوانِ صدر بھجوا دیں۔ میرے ذہن میں ایک نام ہے۔ ماشااللہ اکیانوے سال کی عمر میں بھی کسی بھی موجودہ حاضر افسر کی طرح چاق و چوبند ہیں ۔تمہیں پتہ ہے کہ اس وقت شمالی کوریا کے چیف آف سٹاف بھی ایک پچاسی سالہ جنرل صاحب ہیں۔ چلی کے جنرل پنوشے بھی اسی عمر میں ریٹائر ہوئے اور ویتنام کے جنرل گیاپ کا تو ابھی ایک سو دو سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے۔یہ سب میں نے وکی پیڈیا پر پڑھا تھا۔کیسا آئیڈیا ہے ؟

مشیر: سر آپ کا آئیڈیا سن کر میرے ذہن میں بھی ایک آئیڈیا آگیا ؟

وزیرِ اعظم : واقعی ؟ جلدی سے بتاؤ۔ تم میرے پہلے مشیر ہو جس کے ذہن میں کوئی آئیڈیا آیا؟

مشیر: سر اگر ہم آرمی کا نام نیوی اور نیوی کا نام آرمی رکھ دیں تو مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔

وزیرِاعظم : لیکن اس سے آرمی والے ناراض ہو سکتے ہیں۔ میں دوسری دفعہ ان کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا ۔

مشیر: تو پھر سر ان تین تصویروں میں سے ہی ایک چن لیں ۔

وزیرِاعظم : در فٹے منہ۔۔۔ تم کدو کے مشیر ہو ؟

مشیر : سر ۔۔


Interesting Article on War Against Terror - Unknown Author


مان لیتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ ہو یا دہشت گردی کے خلاف عالمی لڑائی کا شاخسانہ۔ دونوں کے دونوں ہیں، امریکی ڈراما اور پاکستان جیسے مسکین ممالک کو بھی اس میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں پچھلے بارہ برس میں بالخصوص جو تباہی پھیلی ہے، اس کی ذمے دار امریکا کی علاقائی پالیسیاں ہیں۔ جب تک پاکستان اس کرائے کی جنگ سے جان نہیں چھڑائے گا، تب تک خودکش جان نہیں چھوڑیں گے۔ پاکستان میں اگر امن قائم کرنا ہے تو پھر امریکا کی تھوپی اس جنگ کو مسترد کرنا ہوگا۔

پرائی جنگ اپنی کیسے بنتی ہے ؟ اس کے لیے میں آپ کو بہت دور تک نہیں بس چوہتر برس پیچھے لے جاؤں گا جب ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کردیا تھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ باقی ممالک کہتے کہ بھئی یہ تو پولینڈ اور جرمنی کا آپس کا معاملہ ہے، ہمارا اس سے کیا تعلق۔پرمعلوم نہیں کیوں پولینڈ پر حملے کے دو دن بعد ہی فرانس اور برطانیہ نے ہٹلر کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ لیکن اسٹالن پھر بھی پاکستان کی طرح اسی گمان میں رہا کہ یہ دنیا کا خون چوسنے والی چمگادڑوں کی آپس کی لڑائی ہے، ہم کیمونسٹوں کا اس سے کیا لینا دینا۔چنانچہ اس نے ہٹلر سے عدم جارحیت کا معاہدہ کرلیا اور پاکستان کی طرح مطمئن ہوگیا۔مگر جب ہٹلر نے پورے مغربی یورپ پر قبضہ کرلیا تو پھر اس نے مشرق کا رخ کیا اور سوویت یونین پر حملہ کردیا۔یوں اسٹالن کی پرامن بقائے باہمی کی ساری تھیوری دھری کی دھری رھ گئی اور اسے ہٹلر کے مخالف خون چوس چمگادڑی سرمایہ دار ممالک کی مدد لینی پڑ گئی۔

جو سوچ اسٹالن کی تھی کم و بیش یہی سوچ اس دور کی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بھی تھی۔اس نے بھی یہی سمجھا کہ لڑائی تو یورپ میں ہورہی ہے سانوں کی۔۔۔۔لیکن جب ایک دن جاپانیوں نے پرل ہاربر پر ہلہ بول کر پورا بیڑہ تباہ کردیا اور امریکا کے منہ پر رکھ کے چپیڑ پڑی تب ہڑبڑاتے روزویلٹ کی بوڑھی سمجھ میں آیا کہ یہ جنگ دو ممالک یا دو اتحادوں یا دو نظریات سے زیادہ کی لڑائی ہے۔یہ جرمن اطالوی جاپانی فاشزم بمقابلہ باقی دنیا کی جنگ ہے۔

حتی کہ چین میں برسرِپیکار قوم پرست چیانگ کائی شیک اور کیمونسٹ ماؤزے تنگ بھی آپسی دشمنی ایک طرف رکھ کے جاپانی استعمار کے خلاف عارضی طور پر متحد ہوگئے۔ پھر جو بھی نتیجہ نکلا وہ آپ سب کے سامنے ہے۔اگر یہ نا ہوتا تو ہوسکتا ہے، آج واشنگٹن سے ماسکو اور بیجنگ سے دلی تک جرمن اور جاپانی اور کہیں کہیں اطالوی زبان بولی جارہی ہوتی۔اسرائیل سے عربوں نے انیس سو اڑتالیس سے آج تک جتنی بھی جنگیں لڑیں، ان میں سے کوئی جنگ عربوں نے یک سو ہو کر نہیں لڑی۔کبھی ایک روٹھ گیا تو کبھی دوسرا نیم دل ہوگیا تو کبھی تیسرے نے بروقت محاذ کھولنے میں تاخیر کردی تو کبھی دو نے سمجھ لیا کہ تیسرا جانے اور اسرائیل جانے۔ نتیجہ؟ آج تک اسرائیل اپنے سے چالیس گنا عربوں کو سیاسی و عسکری لحاظ سے دوڑا دوڑا کے مار رہا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل امریکا کے بھروسے یہ سب حرکتیں کررہا ہے۔مگر امریکا تو آدھے سے زیادہ مسلمان ملکوں اور ان کی اسٹیبلشمنٹ کا بھی پشتی بان تھا اور ہے-

دور کیوں جائیں۔ جب سوویت یونین نے کابل میں فوجیں اتاریں تو وہ بھی افغانوں اور روسیوں کی جنگ تھی۔ پاکستان ، امریکا ، سعودی عرب ، ایران اور اسرائیل سمیت باقی دنیا کو یہ پرائی جنگ گلے لگانے کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔ پھر بھی نا جانے اس پرائی جنگ کے لیے پاکستان کی مذہبی جماعتیں کیوں ہلکان ہوئی جارہی تھی۔اس وقت کیوں ان میں سے کسی نے نہیں کہا کہ برادر ضیا الحق تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔اس وقت بھی تو ولی خان جیسے چند سرپھرے یہی کہہ رھے تھے جو آج منور حسن ، عمران خان اور فضل الرحمان الگ الگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان پرائے پھٹے میں ٹانگ اڑا کے بہت بڑی غلطی کررہا ہے۔

بھینسوں کی لڑائی میں صرف گھاس کچلی جائے گی۔لیکن اس وقت ولی خان اور ان کے ہمنوا نظریہ پاکستان کے دشمن غدار روسی ایجنٹ قرار پائے۔اس وقت روس بقول امریکی بلاک بلوچستان کے گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا لہذا اس کو اجتماعی طور پر روکنا بقول ریگن و مارگریٹ تھیچر پوری آزاد دنیا کی اجتماعی ذمے داری قرار پائی اور پھر پوری سرمایہ دار اور مسلمان دنیا نے مل کر روس کو پسپا کرنے میں اپنی اپنی بساط کے مطابق یا اوقات سے بڑھ کے حصہ ڈالا۔تو کیا آج طالبان اور القاعدہ کا ایجنڈہ اس وقت کے روس سے مختلف ہے ؟اور کیا امریکا اس وقت اپنا عالمی ایجنڈہ دنیا پر تھوپنے سے باز آگیا تھا ؟

چلیے پھر بھی مان لیتے ہیں کہ موجودہ جنگ پاکستان پر تھوپی گئی ہے لہذا اس سے الگ تھلگ رہنا ہی بہتر ہے۔فرض کریں کل حکومتِ پاکستان اس جنگ سے لاتعلقی کا اعلان کردیتی ہے تو پھر کیا ہوگا ؟ کیا خودکش بمبار جیکٹیں پھینک کر کاشتکاری اختیار کرلیں گے ؟ دیگر سرفروش لیویز اور پولیس کی بھرتی کی لائنوں میں کھڑے ہوجائیں گے ؟ کیا لشکرِ جھنگوی تحریکِ جعفریہ سے جھپی ڈال لے گا ؟ کیا سب افغان اس فیصلے پر ہار پھول لے کر پاکستان کی طرف دوڑ پڑیں گے ؟ آیاسعودی عرب بھی پرجوش خیر مقدم کرے گا کہ جس کی سرزمین سے یمن میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے کیے جاتے ہیں ؟

کیا وہ بدستور پاکستان کو تیل تین مہینے کے ادھار پر دیتا رہے گا ؟ برادر ترکی پاکستان کی پوزیشن تسلیم کرلے گا کہ جس کے دستے افغانستان میں ناٹو کا حصہ ہیں ؟ کیا پاکستان کا ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہرا دوست چین پاکستان کے اس اعلان کی مکمل حمایت کرے گا جو اس وقت بھی تربیت پا کر شنجیانگ صوبے میں جانے والے جوشیلوں کے معاملے پر پاکستان سے زیرِ لب کچھ نا کچھ کہتا رہتا ہے ؟ کیا ایران اس جرات مندانہ فیصلے پر پاکستان کی پیٹھ تھپتھپائے گا جسے بقول اس کے بلوچستان سے متحرک جنداللہ نے تنگ کررکھا ہے؟ کیا آئی ایم ایف کے منہ موڑ لینے سے جو قرضی خلا پیدا ہوگا، اسے اس جنگ کو غیر کی جنگ سمجھنے والے بھر پاویں گے ؟

اگر آج مسلم لیگ نواز ، جماعتِ اسلامی ، تحریکِ انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کی وفاق اور چاروں صوبوں میں دو تہائی اکثریت سے حکومت بن جائے تو کیا کل پہلا ڈرون گر جائے گا ؟ ناٹو فورسز کی سپلائی کا رخ روس کے راستے پر موڑ دیا جائے گا ؟ تحریکِ طالبان کو انیس سو تہتر کے آئین کے تحت اگلا الیکشن لڑنے پر اگلے ایک ماہ میں نہیں چھ ماہ میں نہیں سال بھر میں نہیں دوسال میں بات چیت کے ذریعے آمادہ کرلیا جائے گا ؟ کہیے نا کہ ہاں یہ سب ہوگا ؟ یا ان میں سے کچھ ہوگا اور کچھ نہیں ہوگا۔چلیے یہی بتادیں کہ وہ ’’ کچھ’’ کیا ہے جو ہوجائے گا ؟

کیا دوسری عالمگیر جنگ ضروری تھی ؟ ہٹلر سے بات چیت بھی تو ہوسکتی تھی ؟ کیوں تین کروڑ لوگ فنا ہوگئے ؟ سوویت یونین سے بھی تو مذاکرات ہوسکتے تھے کہ وہ افغانستان سے نکل جائے ؟ کیوں دس لاکھ افغان مرگئے اور چالیس فیصد بے گھر ہوگئے ؟ اسرائیل سے بھی بات چیت ہو تو رہی ہے نا سن نوے سے ؟ پھر کیا نتیجہ نکل رہا ہے اس تئیس سالہ بات چیت کا ؟ جب محلے میں شعلے بلند ہورہے ہوں تو پہلے آگ بجھائی جاتی ہے یا یہ بحث زیادہ ضروری ہوتی ہے کہ فلاں گھر میں بجھا دو کیونکہ دوست ہے اور ساتھ والے گھر کو رہنے دو کیونکہ دشمن ہے۔اور جب تک یہ نا طے ہوجائے کہ آگ زید نے لگائی کہ بکر نے تب تک کوئی بھی احتجاجاً پانی کی بالٹی نا بھرے ؟

تو پھر یہ جنگ کس روز پرائی ہوئی جسے اعلیٰ عدلیہ کے حلف یافتہ جنرل پرویز مشرف نے اپنایا تھا ؟ کیا مشرف صاحب اس وقت کوئی امریکی کمانڈر تھے ؟ کیا انھوں نے دو ہزار دو میں وہ انتخابات نہیں کرائے تھے کہ جن میں اپنی پرائی جنگ کی بحث سجانے والی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلسِ عمل نے پارلیمنٹ میں ساٹھ اور صوبہ سرحد میں اکثریتی نشستیں حاصل کی تھیں ؟ اور پھر اس پرائی جنگ میں جھونکنے والے مشرف کو بھی اگلے چھ برس برداشت کیا ، اس کے ساتھ گروپ فوٹو کھچوائے اور ستہرویں ترمیم اور وردی میں صدارت کے تحفے خریدنے میں بھی کماحقہ حصہ ڈالا۔لال مسجد کے واقعے اور ڈما ڈولا میں ڈرون حملے میں پچاسی کے لگ بھگ مدرسے کے طلبا کی ہلاکت کے بعد بھی کیا صوبہ سرحد اور بلوچستان کی حکومت چھوڑنے اور پرائی جنگ کا بائیکاٹ کرنے کا جواز نہیں بنتا تھا ؟ اور خود ایم ایم اے کہاں سے آئی تھی اور پھر کہاں چلی گئی حضرات ؟ اور یہ اپنی پرائی جنگ کے علمبردار آج بھی ایک میز پر بیٹھ کر ایک دوسرے کی آنکھوں سے آنکھیں ملانے پر کیوں تیار نہیں ؟

ویسے دنیا کی ایسی کون سی آگ اور جنگ ہے جو کسی نا کسی کی غلطی یا غلط فہمی سے شروع نا ہوئی ہو ؟ تو چونکہ آپ اس میں ابتدائی فریق نہیں تھے لہٰذا آپ کا پائنچہ اور دامن پکڑنا اس آگ کو اخلاقاً زیب نہیں دیتا ؟ کیا جنگ اور آگ اپنے پرائے کو پہچانتی ہے ؟ ہاں شائد ایسا ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے آگ اور جنگ کا یکسوئی سے سامنا کرنا پڑتا ہے اور سامنا کرنے کے لیے حوصلہ چاہیے اور حوصلہ ’’چونکہ چنانچہ‘‘ سے نہیں آتا۔ ویسے بھی اب تک کوئی بندوق ایجاد نہیں ہوئی جس میں تاویل کا کارتوس پڑتا ہو۔

Javed Chauhdry Article - کونسل آف ایلڈرز


کونسل آف ایلڈرز
جاوید چوہدری  ہفتہ 27 جولائ 2013
شیخ حفیظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ یہ زندگی کی 76 بہاریں دیکھ چکے ہیں‘ شیخ صاحب نے بھرپور زندگی گزاری‘ جوانی میں یورپ گئے اور پورا یورپ ٹرینوں‘ بسوں اور پیروں پر دیکھ ڈالا‘ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی‘ ناکام رہے‘ پاکستان واپس آئے‘ مختلف جابز کیں‘ ان سے تھک گئے تو بینک میں ملازمت کر لی‘ یہ ان کی آخری ملازمت تھی‘ یہ پوری زندگی کے لیے بینکر بن کر رہ گئے‘ یہ 1997ء میں ایک بڑے بینک سے سینئر نائب صدر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور16 برسوں سے ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ جوانی میں رمل کے شوق میں بھی مبتلا ہو گئے‘ رمل کا علم سیکھا اور مہارت حاصل کر لی‘ یہ کتابیں پڑھنے کے بھی شیدائی ہیں‘ یہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی ہیں اور یہ برسوں سے شوگر کی دوا بنانے میں بھی مصروف ہیں غرض آپ جس زاویے سے دیکھیں آپ شیخ صاحب کو ایک دلچسپ اور شاندار انسان پائیں گے۔

میری ان سے پہلی ملاقات 1999ء میں ہوئی‘ میں اس وقت تازہ تازہ ’’مشہور‘‘ ہوا تھا اور یہ ’’مشہوری‘‘ مجھ سے روزانہ بے شمار غلطیاں کرواتی تھی‘ پھر شیخ صاحب ملے اور انھوں نے میری نکیل پکڑ لی‘ یہ زندگی کے ہر معاملے میں میری رہنمائی کرنے لگے‘ ان کا پہلا سبق بہت دلچسپ تھا‘ ان کا کہنا تھا آپ جتنے بھی طاقتور ہو جائیں‘ آپ جتنے بھی کامیاب ہو جائیں‘ آپ وقت کو واپس نہیں پلٹ سکتے مثلاً آپ ساٹھ سال کی عمر میں دنیا کے امیر ترین شخص ہو جائیں اور آپ اپنی ساری دولت خرچ کر دیں تو بھی آپ بیس پچیس سال کے جوان نہیں ہو سکیں گے چنانچہ آپ جوانی کے کام جوانی ہی میں کرو‘ انھیں بڑھاپے کے لیے بچا کر نہ رکھو‘ ان کا کہنا تھا ’’میں دنیا دیکھنا چاہتا تھا‘ میں افریقہ‘ امریکا‘ جنوبی ایشیا اور آسٹریلیا دیکھنا چاہتا تھا مگر میں پھر جاب میں پھنس گیا اور ہمیشہ یہ سوچتا رہا میں جب معاشی لحاظ سے آزاد ہو جاؤں گا تو میں اپنی یہ خواہش پوری کروں گا‘ میں پچاس پچپن سال کی عمر میں خوش حال ہوگیا مگر اس وقت تک میرا جسم بوڑھا بن چکا تھا‘ میں شوگر کا مریض ہو چکا تھا۔

مجھے بلڈ پریشر کی بیماری بھی لگ چکی تھی لہٰذا میں ’’افورڈ‘‘ کرنے کے باوجود ملک سے باہر نہیں جا سکتا تھا‘ زندگی کے ہر شوق کی ایک عمر ہوتی ہے‘ اگر یہ عمر گزر جائے تو پھر آپ ’’افورڈ‘‘ کرنے کے باوجود وہ شوق پورا نہیں کر سکتے ‘ میرا مشورہ ہے آج کے دن میں زندہ رہنا سیکھو کیونکہ کل آ جائے گا لیکن آج دوبارہ نہیں آئے گا‘‘ اور میں نے یہ سیکھ لیا‘ میں نے اپنے شوق کی فہرست بنائی‘ ان کے سامنے عمر کے وہ حصے لکھے جن میں یہ ممکن ہیں اور پھر ان کی تکمیل میں جت گیا‘ اس فہرست میں سفر‘ جاگنگ‘ ایکسرسائز‘ریستوران‘ جینز‘ فلمیں‘دنیا بھر کے کامیاب لوگوں سے ملاقاتیں اور کتابیں شامل ہیں‘ ان کا دوسرا سبق ’’واک‘‘ تھا‘ میں لیٹ سوتا ہوں چنانچہ صبح نہیں اٹھ سکتالہٰذا میں واک کی روٹین نہیں بنا پاتا تھا‘ شیخ صاحب نے یہ ’’متھ‘‘ توڑ دی‘ انھوں نے بتایا‘ واک کا کوئی وقت اور کوئی جگہ نہیں ہوتی‘ آپ گاڑی میں جوگر  رکھو اور جہاں موقع ملے‘ جو گرز پہنو اور واک شروع کر دو‘ میں نے یہ شروع کر دیا اور یوں ایک مہینے میں واک میری زندگی کا معمول بن گئی۔

شیخ حفیظ نے بتایا‘ فیملی سپریم ہوتی ہے‘ ان کا کہنا تھا ’’میرے تمام عزیز ایک ایک کر کے میری زندگی سے نکل گئے‘ دوست ساتھ چھوڑ گئے یا دور چلے گئے‘ میں اس جاب سے ریٹائر ہو گیا جس کے لیے میں نے خون‘ پسینہ اور زندگی کے قیمتی ترین دن اور رات دیے تھے‘ یوں میری زندگی سے ہر وہ چیز رخصت ہو گئی جس کو میں اہم سمجھتا تھا اور آخر میں صرف فیملی رہ گئی‘ میرے ساتھ اب صرف میرے بچے ہیں چنانچہ جس چیز نے آخری سانس تک آپ کا ساتھ نبھانا ہے اس پر کسی قسم کا ’’کمپرومائز‘‘ نہیں ہونا چاہیے‘ اسے سپریم رہنا چاہیے‘‘ میں نے یہ بات بھی پلے باندھ لی‘ میں فیملی پر کمپرومائز نہیں کرتا‘ شیخ صاحب نے سکھایا ’’ وعدہ نہیں توڑنا‘ اگر ایک بار کمٹمنٹ کر لی تو پھر اسے ٹوٹنا نہیں چاہیے اور آپ کی اس عادت کا پوری دنیا کو علم ہونا چاہیے‘ دوست بہت کم ہونے چاہئیں لیکن شاندار ہونے چاہئیں‘ اللہ تعالیٰ کو ہر وقت راضی رکھیں کیونکہ اگر وہ آپ کے ساتھ ہے تو پھر کوئی فرق نہیں پڑتا کون کون آپ کے خلاف ہے۔

بچت کو آپ کے اخراجات سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے‘آپ 75 فیصد خرچ کریں صرف 25 فیصد بچائیں کیونکہ آپ اپنی خواہشوں اور حسرتوں کو دبا کر بچت کرتے ہیں اور یہ بچت کسی بھی وقت ضایع ہو سکتی ہے‘ لوگوں سے توقعات وابستہ نہ کریں‘ ان پر اعتبار کرنے سے پہلے کم از کم تین بار انھیں ٹیسٹ کر لیں‘ آپ اپنے راستے پر سیدھا چلتے رہیں‘ یہ نہ دیکھیں آپ کو کون کیا کہہ رہا ہے‘ کون آپ کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے‘آپ کسی الزام کا جواب نہ دیں کیونکہ جو لوگ آپ کو جانتے ہیں ان کی نظر میں ان الزامات کی کوئی حیثیت نہیں اور جو آپ سے واقف نہیں ہیں وہ آپ کی وضاحت کو اعتراف جرم یا دال میں کالا سمجھیں گے‘‘ شیخ صاحب نے سمجھایا‘بے غرض ہو جائو‘ لوگوں کی محتاجی سے نکل جائو گے اور انسان کا کام انسان کی سب سے بڑی پبلک ریلیشننگ ہوتا ہے‘‘ شیخ صاحب نام نہاد روحانیت کے بھی سخت خلاف ہیں‘ میں ایک وقت میں بزرگوں کی تلاش میں رہتا تھا‘ مجھے جس شخص کے سر میں راکھ نظر آتی تھی‘ میں اس میں پیر کامل تلاش کرنا شروع کر دیتا تھا۔

شیخ صاحب نے یہ ’’ متھ‘‘ بھی توڑ دی‘ یہ میرے ساتھ بزرگوں کی محفلوں میں جاتے اور انھوں نے ایک ایک کر کے تمام بزرگ بھگا دیے‘ انھوں نے ثابت کر دیا آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر تمام انسان‘ انسان ہیں اور ہم میں سے ہر شخص خطا‘ طمع اور خوف کا پتلا ہے‘ انھوں نے سمجھایا محنت سے بڑا محسن‘ نیک نیتی سے بڑا استاد اور مہارت سے بڑی کوئی جاب نہیں ہوتی‘ شیخ صاحب نے مزید دو دلچسپ چیزیں سکھائیں‘ انھوں نے بتایا‘ دوستیاں ہمیشہ اس وقت خراب ہوتی ہیں جب کوئی دوست آپ سے اپنا راز شیئر کرتا ہے اور آپ اس راز کے استعمال کی غلطی کر بیٹھتے ہیں‘ یہ مثال دیتے ہیں‘ فرض کرو آپ کا کوئی دوست آپ کو یہ بتا دیتا ہے‘ اس کے پاس اتنی رقم ہے اور آپ بعد ازاں اس سے ادھار مانگ لیتے ہیں‘ ادھار کا یہ مطالبہ آپ کا تعلق ہمیشہ کے لیے خراب کر دے گا‘ آپ کا دوست جب کوئی راز شیئر کرے تو آپ اس سے کبھی کوئی مطالبہ نہ کرو کیونکہ یہ مطالبہ بددیانتی ہو گا۔

انھوں نے دوسری بات سمجھائی آپ اپنے کسی عزیز‘ دوست یا کولیگ کے ساتھ کتنے ہی ناراض ہوں لیکن وہ شخص جب کسی ایمرجنسی میں آپ کو فون کرے تو آپ اپنی ناراضی کا اظہار نہ کریں‘ آپ فوری طور پر اس کی مدد کریں اور کام ہونے کے بعد وہ اگر شکریہ ادا کرنے آئے تو آپ ہلکے پھلکے انداز میں اسے سمجھا دیں تم نے فلاں وقت میرے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی‘ میں تم سے ناراض تھا مگر مجھ سے تمہاری تکلیف دیکھی نہیں گئی اور میں اختلاف اور ناراضی کے باوجود تمہارے ساتھ چل پڑا‘ شیخ صاحب نے سمجھایا آپ کبھی دل کے کمزور یا بے حوصلہ شخص کے لیے اسٹینڈ نہ لیں کیونکہ وہ شخص اپنے دعوے سے منحرف ہو جائے گا‘ وہ مخالف پارٹی سے صلح کر لے گا مگر آپ لوگوں سے اپنے تعلقات خراب کر بیٹھو گے‘آپ ہمیشہ ایسے بہادر اور بااصول لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں جو اپنے اسٹینڈسے پیچھے نہ ہٹیں ٗجو آپ کو میدان میں اکیلا نہ چھوڑجائیں‘ انھوں نے سمجھایا‘ عزت اوردولت میں جب بھی کسی ایک کے انتخاب کا وقت آئے تو دولت کی قربانی دو کیونکہ دولت زندگی میں باربارآتی ہے مگر عزت ایک بارچلی جائے توپھرکبھی واپس نہیں آتی‘ ان کا کہنا تھا کہ اپنے بچوں بالخصوص بیٹیوں کی تمام جائز ضروریات پوری کیاکرو‘ ان کا کوئی مطالبہ یاتقاضا مسترد نہ کرو کیونکہ بچے والدین کی محبت کو پوری زندگی یاد رکھتے ہیں۔

شیخ صاحب میرے عملی استاد ہیں ‘ یہ تجربہ کار بھی ہیں‘ عالم بھی اور اس سے کہیں زیادہ نیک نیت بھی لہٰذا میں جب بھی کسی مسئلے کا شکار ہوتاہوں یا کسی کنفیوژن میں پھنس جاتا ہوں یا کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا تو میں شیخ صاحب سے رابطہ کرتا ہوں اور اونچی آواز میں کہتا ہوں ’’بابا جی گیدڑ آ گئے ہیں‘‘ اور شیخ صاحب کا قہقہہ نکل جاتاہے‘ گیدڑ شیخ صاحب کی ایک دلچسپ اصطلاح ہے‘ یہ کہا کرتے ہیںوسوسے اور اندیشے گیدڑ ہیں‘ یہ انسان کو اکثر گھیر لیتے ہیں اورآپ اگر ان پر قابو پانا سیکھ جائیں تو آپ مسائل کے گرداب سے نکل آتے ہیں آپ اگر یہ فن نہیں سیکھتے توگیدڑ آپ کی صلاحیتیں کھا جاتے ہیں‘ میں ان کے قہقہے کے بعد اپنا مسئلہ ان کے سامنے رکھتا ہوں اور وہ اس کے دو حل تجویز کرتے ہیں‘ ایک حل علمی ہوتاہے‘ یہ پڑھی لکھی رائے ہوتی ہے اوردوسرا حل تجربہ ہوتا ہے‘ شیخ صاحب مجھے بتاتے ہیں‘ وہ زندگی کے کس حصے میں اس قسم کے مسئلے کا شکارہوئے تھے‘ انھوں نے غلط فیصلہ کیا تھا اور اس کا انھیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا‘ وہ اپنے کسی نہ کسی جاننے والے یا دوست کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور یوں ہم حل پر پہنچ جاتے ہیں‘ میں اکثر اپنے دوستوں یا جاننے والوں کوبتاتاہوں‘ میری عمرہزار سال ہے‘میں بیالیس سال کا ہوں‘ میرا استاد 76 سال کا اور ہماری کتابیں880 سال کی ہیں اور یہ ہزار سال کا تجربہ مجھے راستے سے بھٹکنے نہیں دیتا۔

یہ میری زندگی کا تجربہ ہے‘ ہمارے دوست اورہمارے سیاستدان بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ آپ کی زندگی میں بھی بے شمار تجربہ کار لوگ موجود ہوں گے‘ آپ ان میں ستر پچھتر سال کے پڑھے لکھے ٗ تجربہ کار ٗ ذہین‘نیک اور بے لوث لوگ چنیں اور آپ انھیں اپنا استاد بنا لیں‘ یہ آپ کو زندگی کے بے شمار مسائل سے بچائے رکھیں گے‘ یہ آپ کوغلط مشیروں‘ غلط لوگوں اور غلط فیصلوں سے بھی محفوظ رکھیں گے آپ اگرحکمران ہیں تو آپ ایک ’’کونسل آف ایلڈرز‘‘ بنا لیں‘ یہ تجربہ کار بزرگوں کی ایک ایسی خفیہ کونسل ہو جو آپ کو مشکل وقت میں مشورے دے‘ آپ ان مشوروں پر عمل کریں اور اپنی ذات اور اپنے ملک دونوں کو مسائل سے نکال لیں‘ عربی کہاوت ہے ’’مشورے کا وقت آئے تو کبھی ذہین شخص سے مشورہ نہ کریں ٗ تجربہ کار کی مدد لیں‘‘۔

Total Pageviews

Popular Posts