Reality of Propaganda of PMLn against Judiciary

تحریر: عامر ہاشم خاکوانی

 کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں سپریم کورٹ پر ایک ہی بار فزیکل حملہ کیا گیا، جب ایک سیاسی جماعت کے سینکڑوں کارکنوں نے سپریم کورٹ پر ہلہ بول دیا اور چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کو بھاگ کر ریٹائرنگ روم میں پناہ لینا پڑی اور وہاں سے وہ بمشکل نکل پائے ورنہ ہجوم کے ہاتھ زخمی ہوجاتے ۔ 

  وہ جماعت مسلم لیگ ن ہے۔ یہ واقعہ انیس سو ستانوے کا ہے جب وزیراعظم نواز شریف تھے اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔ 

    کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ایک واقعہ ایسا ہے جب وزیراعظم کے خصوصی مشیر نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ایک اور جج کو فون کر کے کہا کہ وزیراعظم کے مخالف سیاستدان کو فوری سزا سنائی جائے۔ 

  وہ فون ٹیپ ہوگیا اور بعد میں منظر عام پر آنے پر ان دونون ججوں کو استعفا دینا پڑا۔ 

  جی اس واقعے میں بھی ن لیگ ملوث تھی۔ سیف الرحمن فون کرنے والا تھا جبکہ ملک قیوم اور ایک اور جج کو استعفا دینا پڑا تھا۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک پارٹی کے سربراہ کی اسمبلی توڑی گئی اور پھر بحال ہوئی اور پھر بحال کرنے والے ججوں کے بارے میں اس وقت کی اپوزیشن لیڈر جو ایک سابق وزیراعظم بھی تھیں، انہوں نے بیان دیا کہ (پیسے کی )چمک کام دکھا گئی۔ 

  جی وہ بھی ن لیگ کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔ وہ واحد ایسے خوش نصیب سیاستدان ہیں جن کی توڑی ہوئی اسمبلی بحال کی گئی۔ اسے جسٹس نسیم حسن شاہ نے بحال کیا تھا، جن پر ن لیگ کے طرفدار ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ کارروائی کر رہی تھی، اچانک ایسا جادو چلا کہ سپریم کورٹ منقسم ہوگئی اور بعد مین وہ مخالف چیف جسٹس ہی کو جانا پڑا۔ بعد میں کہا گیا کہ اس وزیراعظم کے اشارے میں ایک سابق جج بریف کیس لے کر کوئٹہ گئے اور جوڑ توڑ کیا۔ 

  کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سابق جج کو بعد میں حیران کن طور پر صدر مملکت بھی بنایا گیا۔ ان کا نام رفیق تارڑ تھا ، وہی جن کا نواسا عطا تارڑ آج کل ن لیگ کا کرتا دھرتا رہنما ہے۔ 

  جبکہ وہ وزیراعظم بھی نواز شریف تھا۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک سابق وزیراعظم کو صڑف پچاس روپے کے سٹامپ پیپر پر ایک خالی خولی یقین دہانی کے بعد باہر جانے دیا گیا اور وہ پچھلے ساڑھے تین برسوں سے واپس نہیں لوٹا۔  تب حکومت نے عدالت کو کہا تھا کہ اس سے چند ارب یا چلیں کروڑوں کا بانڈ بھروائیں، واپس نہیں آئے گا۔ عدالت نے ایسا نہ کیا اور وہ سابق وزیراعظم آج لندن میں بیٹھا مزے سے کافی پیتا ، آئس کریمیں کھاتا گھومتا پھرتا ہے اور ایک بار بھی اپنی اس نام نہاد پیچیدہ بیماری کے علاج کے لئے ہسپتال داخل نہین ہوا۔ 

 جی اس کا نام نواز شریف ہے۔ 

  کیا آپ جانتے ہیں کہ صرف دو ڈھائی سال پہلے ایک سابق وزیراعظم کے بھتیجے اور سابق وزیراعلیٰ کے بیٹے کی ضمانت ایک جج صاحب نے اتوار کے روز لے لی اور ہرگز یہ نہیں کہا کہ حفاظتی ضمانت کے لئے ملزم کو عدالت میں پیش ہونا ضروری ہے۔ 

  جی وہ ملزم حمزہ شہباز شریف تھا۔ ضمانت لینے والے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاسم خان تھے۔ وہی صاحب جو ن لیگ کے چہیتے رہے ۔ 

 کیا آپ جانتے ہیں کہ انہی جسٹس قاسم خان صاحب نے احتساب عدالت کے ریٹائر ہوجانے والے ججوں کی جگہ نئے جج تعینات نہ کئے، مہینوں تک وہ سیٹیں خالی رہیں، عدالت میں کیسز آگے نہ بڑھے اور پھر اسی بات کو بنیاد بنا کر ان ملزموں (جی وہ سب ن لیگی لیڈر تھے ) کی ضمانت لے لی کہ نیب ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی اور یہ کئی ماہ سے اسیر ہیں۔ نیب چیختی چلاتی رہی کہ ان ججوں کو آپ نے مقرر کرنا تھا، اگر نہیں کئے اور وہ عدالتیں خالی تھیں تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ 

   کیا آپ جانتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک سابق چیف جسٹس ایسا بھی تھا جس نے نوے کے عشرے میں ن لیگ سے کونسلر کا الیکشن لڑا۔ ن لیگ نے اسے ہائی کورٹ کا جج بنادیا اور وہ بعد میں خاصا عرصہ چیف جسٹس بھی رہا۔ ان کانام خواجہ شریف تھا۔ 

  جی صاحبو! یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں اور بے شمار واقعات موجود ہیں۔ اتنے کہ بہت سے لکھے نہیں جا سکتے، زبانی سنائے جا سکتے ہیں۔ بعض لکھتے لکھتے میں تھک جائوں گا۔ جس سابق چیف جسٹس نے اسمبلی بحال کی تھی، اس کا ایک حیران کن واقعہ ایسا ہے کہ لکھوں تو یقین نہیں آئے گا۔ چلیں رہنے دیتے ہیں۔ کبھی ملاقات ہوئی تو زبانی بتائوں گا۔ راوی اس کا ن لیگ کا نہایت سینئر اور معتبر حامی صحافی ہے۔

   آج جب مریم نواز شریف چیخ چیخ کر جلسوں میں جھوٹے الزامات لگاتیں اور صاف جھوٹ بولتی ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ 

  اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت 

  دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ  

والا شعر سنانے کو جی چاہتا ہے

Total Pageviews

Popular Posts