Future of Imran Khan and Establishment - Fraz Naqvi

خان کبھی مقتدر حلقوں کی پہلی چوائس نہیں تھا!!

اگر نواز شریف 13 جولائی کو مریم نواز کے ساتھ لاہور نا آتا  تو شہباز شریف ہی 2018 میں  وزیراعظم ہوتا- وہی شہباز شریف جو ریلی کو لاہور کی گلیوں میں گھماتا رہا اور ائر پورٹ نہ پہنچا۔

نواز شریف کو جیل بھیجنا پڑا اور خان کو وزیراعظم کے طور پر لانا پڑا۔ تب بھی کوشش کی گئی کہ پنجاب ن لیگ کو دیا جائے مگر خان ڈٹ گیا کہ یہ نہیں تو وہ بھی نہیں!

وہ علیحدہ بات کہ آپس کی چپقلش میں ہمیں بزدار کا تحفہ ملا جو بالآخر وہ طوطا ثابت ہوا جس میں خان کی جان تھی اور پیرنی کا استخارہ ٹھیک نکلا کہ جب تک بزدار ہے تبھی تک خان بھی وزیراعظم ہے!

مقتدرہ نے خان کو فل سپورٹ کیا!

یہ کوئی معجزہ نہیں تھا، کیانی کی اسی پالیسی کا تسلسل تھا کہ جمہوری حکومت کے پیچھے کھڑے ہونا ہے جب تک وہ ریڈ لائن نہ کراس کرے۔ اسی پالیسی کے تحت اٹھارویں ترمیم بھی برداشت کر لی گئی اورآج بھی ڈی جی ببانگ دہل فرماتے ہیں کہ اس ملک میں کبھی مارشل لا نہیں لگے گا!

بہرحال خان آگیا، لیکن چل نہیں رہا تھا- گورننس نظر نہیں آرہی تھی، بزدار اور محمود جیسے کارٹون مسلط تھے۔ مہنگائی رک نہیں رہی تھی، معیشت ہلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اسد عمر اور اسکی سرجری کی پالیسی سے بزنس میں سے لے کر آئی ایم ایف تک سب پریشان تھے۔ مقتدرہ نے زور لگایا اور اپنا بندہ لے آئی لیکن حالات مشکل تھے۔

 کچھ مانگ تانگ کے معاملہ چلا تو کرونا آ گیا۔ خان کی نیت ٹھیک تھی لیکن سر پیر کوئی نہیں تھا۔ میڈیا کی دم پہ پاؤں رکھ دیا، اپوزیشن کو تننے کی کوشش کی، ٹیکس کے لئے بھی زور لگایا لیکن ہر طرف مافیا تھا، کمزور حکومت تھی، کہیں بلیک میل ہوتا، کہیں عزت بچاتا، کہیں یو ٹرن لیتا۔

خان ڈٹا رہا! مستقل مزاجی کے ساتھ لیکن مقتدرہ پر پریشر بڑھ رہا تھا۔ کوئی کہتا سر یہ کیا تبدیلی ہے، نہ گورننس ہے نہ کرپشن پہ کنٹرول۔ بزدار ہے اور فیصل واڈا، شہباز گل ہے اور شہزاد اکبر، خسرو بختیار ہے اور جہانگیر ترین کی شوگر ملز۔ میڈیا کی مس مینجمنٹ سے مسائل اور بھی زیادہ دکھتے تھے۔

پھر خان نے ابسولوٹلی ناٹ کہہ دیا تو میاں صاحب کی تو جیسے چاندی ہو گئی۔ میاں صاحب جن کا غیرت سے دور کا بھی واسطہ نہیں،  چار بار پکڑے گئے الحمدللہ چاروں بار جھکے، پیچھے ہٹے پھر بوٹ پالش کئے اور واپس آ گئے، ایک بار بھی بھٹو کی طرح غیرت نہیں دکھائی سو آج بھی زندہ ہیں اور اگلی باری کے امیدوار۔

مقتدرہ پہلے دن سے اپوزیشن کو سزاؤں اور امریکہ سے پنگے کے خلاف تھی۔ وہ سمجھتے تھے ملک کا وسیع تر مفاد اسی میں ہے۔ نواز شریف اور مریم کو ریلیف بھی اسی لئے ملا۔ خان کے لئے یہی دو اشوز ضروری تھے، اس کی پولیٹیکل ہسٹری انہی نعروں پر تھی، اس نے الیکشن ہی کرپشن پر لڑا تھا۔ مقتدرہ کا زور پرفارمنس پر تھا،  خان بات مانتا نہیں تھا۔

ابسولوٹلی ناٹ پر کسی کو اعتراض نہیں تھا، نعرے لگانے اور شور مچانے پر تھا۔ روس جانے پر سب آن بورڈ تھے لیکن یو این کی قرارداد میں ووٹ پہ اختلاف تھا۔ اور یہ شکوہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے کہ خان کے لئے وہ کام بھی کئے گئے جو باقی کسی کے لئے نہیں ہوئے۔ کارکے ہو یا ریکوڈیک، این سی او سی ہو یا لوکسٹ، الیکشن ہو یا کوئی بل، نمبر پورے کرنے ہوں یا کسی کو چپ کروانا، مقتدر حلقے ہمیشہ خان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔

مسئلے بڑھتے گئے کیونکہ خان کی پاپولیرٹی گرتی جا رہی تھی۔ بزدار سے پنجاب نہیں سنبھل رہا تھا، اتحادی خوش نہیں تھے لیکن مجبور تھے۔ پھر میاں صاحب نے نام لے کر گالیاں شروع کیں، مولانا نے چیخ چنگھاڑ میں حصہ ڈالا، امریکا بہادر نے بھی ناراضگی ظاہر کرنا شروع کر دی، میاں صاحب نے لندن کی دوائی کا فائدہ اٹھا کے ملنا جلنا شروع کیا۔ اور خان، اپنی سادگی میں، کبھی پرنس کو ناراض کرتا، کبھی کنگ کو، کبھی ترین کو اور کبھی علیم کو، کبھی اتحادیوں کو اور کبھی ان کو لانے والوں کو۔

اندر سے آوازیں بڑھنا شروع ہو گئیں کہ سر یہ تھا نیا پاکستان؟ یہ تھی تبدیلی؟ اوپر سے خان صاحب کی لیڈری کم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ کبھی رشین بلاک کی بات کرتا کبھی اگلے چیف کی۔ انہیں سمجھایا گیا کے سر، روس، چین نہیں ہے! ہم ایران نہیں ہیں نہ ہی انڈیا!۔ پہلے اپنا گھر ٹھیک کر لیں، لیکن خان کو کون سمجھا سکتا ہے!

جب مقتدرہ کو لگا کہ خان سمجھ نہیں سکتا، اچھے کام کا کریڈٹ خود لیتا ہے اور گالیاں ہم کھاتے ہیں تو انہوں نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جن بیساکھیوں پہ خان صاحب تھے، وہ کھینچ لیں اور کہا کے چار قدم خود چل کر دیکھیں۔ چلنا کیا تھا، خان صاحب کھڑے بھی نہ رہ سکے، دھڑام سے گرے۔ غرور اتنا تھا کے جھکے نہیں،اکڑ گئے۔ لیکن!!!

اور اسی لیکن کے بعد اصل بات ہے!!

لیکن ہوا یہ کہ کبے کو لات راس آگئی! خان کی سادگی، بے بسی، لڑنے اور ڈٹ جانے کی قوت، ٹھیک نیت اور کام کی لگن، باطل کے سامنے کھڑے ہونے کی سکت، انجام سے بے پرواہی، خلوص، انکار، للکار، خودداری، غیرت یا جو کچھ بھی تھا وہ عوام کو بھا گیا۔ اور عام عوام بھی نہیں،  پڑھی لکھی عوام، نوجوان، خواتین، بزرگ، گلی محلے والے، کوٹھیوں والے غرض ہر کوئی۔ اور اب؟

‏ اب جو کرتے ہیں الٹا پڑتا ہے۔ جو مرضی کرو، بات بنتی نہیں ہے!!

خان آج بھی مقتدر حلقوں کی چوائس نہیں ہے!

لیکن کیا مقتدرہ عوام کے خلاف جا سکتی ہے؟ کیا عوام کے وسیع تر مفاد میں مشرف سے جان چھڑوانے والے، عوام کی نبض پڑھنے والے جنکی اصل طاقت ہی عوام کی سپورٹ ہے، عوامی جذبات کے خلاف جا سکتے؟ اور اگر جائیں بھی تو آخر کب تک؟ کیا انہوں نے 6 ماہ کا سوچنا ہے صرف؟ نہیں حضور! بلکہ اس کے بعد کا!

 کیا ایک اپائنٹمنٹ تک محدود ہو چکے ہیں وہ؟ دل نہیں مانتا!

  کیا یہ 77 ہے؟ کیا خان بھٹو ہے؟ اور اگر ہو بھی تو، کیا کوئی ضیاء بننا چاہے گا؟ کیا پاکستان اسکا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستان، خان کو کھو سکتا ہے؟ کیا ملک کسی اور سانحے کا بوجھ سہہ سکتا ہے؟

   جی نہیں حضور!!! جی نہیں!!!

Total Pageviews

Popular Posts