Reality of Propaganda of PMLn against Judiciary
تحریر:
عامر ہاشم خاکوانی
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں سپریم
کورٹ پر ایک ہی بار فزیکل حملہ کیا گیا، جب ایک سیاسی جماعت کے سینکڑوں کارکنوں نے
سپریم کورٹ پر ہلہ بول دیا اور چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کو بھاگ کر ریٹائرنگ روم
میں پناہ لینا پڑی اور وہاں سے وہ بمشکل نکل پائے ورنہ ہجوم کے ہاتھ زخمی ہوجاتے
۔
وہ جماعت مسلم لیگ ن ہے۔ یہ واقعہ انیس سو ستانوے کا ہے جب وزیراعظم نواز شریف تھے
اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ایک واقعہ ایسا ہے جب وزیراعظم کے خصوصی مشیر نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ایک اور جج کو فون کر کے کہا کہ وزیراعظم کے مخالف سیاستدان کو فوری سزا سنائی جائے۔
وہ فون ٹیپ ہوگیا اور بعد میں منظر عام پر آنے پر ان دونون ججوں کو استعفا دینا
پڑا۔
جی اس واقعے میں بھی ن لیگ ملوث تھی۔ سیف الرحمن فون کرنے والا تھا جبکہ ملک قیوم
اور ایک اور جج کو استعفا دینا پڑا تھا۔
جی وہ بھی ن لیگ کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔ وہ واحد ایسے خوش نصیب سیاستدان ہیں
جن کی توڑی ہوئی اسمبلی بحال کی گئی۔ اسے جسٹس نسیم حسن شاہ نے بحال کیا تھا، جن
پر ن لیگ کے طرفدار ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سابق جج کو بعد میں حیران کن طور پر صدر مملکت بھی بنایا
گیا۔ ان کا نام رفیق تارڑ تھا ، وہی جن کا نواسا عطا تارڑ آج کل ن لیگ کا کرتا
دھرتا رہنما ہے۔
جبکہ وہ وزیراعظم بھی نواز شریف تھا۔
جی
اس کا نام نواز شریف ہے۔
جی وہ ملزم حمزہ شہباز شریف تھا۔ ضمانت لینے والے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف
جسٹس قاسم خان تھے۔ وہی صاحب جو ن لیگ کے چہیتے رہے ۔
کیا
آپ جانتے ہیں کہ انہی جسٹس قاسم خان صاحب نے احتساب عدالت کے ریٹائر ہوجانے والے
ججوں کی جگہ نئے جج تعینات نہ کئے، مہینوں تک وہ سیٹیں خالی رہیں، عدالت میں کیسز
آگے نہ بڑھے اور پھر اسی بات کو بنیاد بنا کر ان ملزموں (جی وہ سب ن لیگی لیڈر
تھے ) کی ضمانت لے لی کہ نیب ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی اور یہ کئی ماہ سے
اسیر ہیں۔ نیب چیختی چلاتی رہی کہ ان ججوں کو آپ نے مقرر کرنا تھا، اگر نہیں کئے
اور وہ عدالتیں خالی تھیں تو اس میں ہمارا کیا قصور۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ
والا شعر سنانے کو جی چاہتا ہے
Future of Imran Khan and Establishment - Fraz Naqvi
خان
کبھی مقتدر حلقوں کی پہلی چوائس نہیں تھا!!
اگر
نواز شریف 13 جولائی کو مریم نواز کے ساتھ لاہور نا آتا تو شہباز شریف ہی 2018 میں وزیراعظم ہوتا- وہی شہباز شریف جو ریلی کو
لاہور کی گلیوں میں گھماتا رہا اور ائر پورٹ نہ پہنچا۔
نواز
شریف کو جیل بھیجنا پڑا اور خان کو وزیراعظم کے طور پر لانا پڑا۔ تب بھی کوشش کی
گئی کہ پنجاب ن لیگ کو دیا جائے مگر خان ڈٹ گیا کہ یہ نہیں تو وہ بھی نہیں!
وہ علیحدہ بات کہ آپس کی چپقلش میں ہمیں بزدار کا تحفہ ملا جو بالآخر وہ طوطا ثابت ہوا جس میں خان کی جان تھی اور پیرنی کا استخارہ ٹھیک نکلا کہ جب تک بزدار ہے تبھی تک خان بھی وزیراعظم ہے!
مقتدرہ
نے خان کو فل سپورٹ کیا!
یہ
کوئی معجزہ نہیں تھا، کیانی کی اسی پالیسی کا تسلسل تھا کہ جمہوری حکومت کے پیچھے
کھڑے ہونا ہے جب تک وہ ریڈ لائن نہ کراس کرے۔ اسی پالیسی کے تحت اٹھارویں ترمیم بھی
برداشت کر لی گئی اورآج بھی ڈی جی ببانگ دہل فرماتے ہیں کہ اس ملک میں کبھی مارشل
لا نہیں لگے گا!
بہرحال
خان آگیا، لیکن چل نہیں رہا تھا- گورننس نظر نہیں آرہی تھی، بزدار اور محمود جیسے
کارٹون مسلط تھے۔ مہنگائی رک نہیں رہی تھی، معیشت ہلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
اسد عمر اور اسکی سرجری کی پالیسی سے بزنس میں سے لے کر آئی ایم ایف تک سب پریشان
تھے۔ مقتدرہ نے زور لگایا اور اپنا بندہ لے آئی لیکن حالات مشکل تھے۔
کچھ مانگ تانگ کے معاملہ چلا تو کرونا آ گیا۔ خان کی نیت ٹھیک تھی لیکن سر پیر کوئی نہیں تھا۔ میڈیا کی دم پہ پاؤں رکھ دیا، اپوزیشن کو تننے کی کوشش کی، ٹیکس کے لئے بھی زور لگایا لیکن ہر طرف مافیا تھا، کمزور حکومت تھی، کہیں بلیک میل ہوتا، کہیں عزت بچاتا، کہیں یو ٹرن لیتا۔
خان
ڈٹا رہا! مستقل مزاجی کے ساتھ لیکن مقتدرہ پر پریشر بڑھ رہا تھا۔ کوئی کہتا سر یہ
کیا تبدیلی ہے، نہ گورننس ہے نہ کرپشن پہ کنٹرول۔ بزدار ہے اور فیصل واڈا، شہباز
گل ہے اور شہزاد اکبر، خسرو بختیار ہے اور جہانگیر ترین کی شوگر ملز۔ میڈیا کی مس
مینجمنٹ سے مسائل اور بھی زیادہ دکھتے تھے۔
پھر
خان نے ابسولوٹلی ناٹ کہہ دیا تو میاں صاحب کی تو جیسے چاندی ہو گئی۔ میاں صاحب جن
کا غیرت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، چار
بار پکڑے گئے الحمدللہ چاروں بار جھکے، پیچھے ہٹے پھر بوٹ پالش کئے اور واپس آ
گئے، ایک بار بھی بھٹو کی طرح غیرت نہیں دکھائی سو آج بھی زندہ ہیں اور اگلی باری
کے امیدوار۔
مقتدرہ
پہلے دن سے اپوزیشن کو سزاؤں اور امریکہ سے پنگے کے خلاف تھی۔ وہ سمجھتے تھے ملک
کا وسیع تر مفاد اسی میں ہے۔ نواز شریف اور مریم کو ریلیف بھی اسی لئے ملا۔ خان کے
لئے یہی دو اشوز ضروری تھے، اس کی پولیٹیکل ہسٹری انہی نعروں پر تھی، اس نے الیکشن
ہی کرپشن پر لڑا تھا۔ مقتدرہ کا زور پرفارمنس پر تھا، خان بات مانتا نہیں تھا۔
ابسولوٹلی
ناٹ پر کسی کو اعتراض نہیں تھا، نعرے لگانے اور شور مچانے پر تھا۔ روس جانے پر سب
آن بورڈ تھے لیکن یو این کی قرارداد میں ووٹ پہ اختلاف تھا۔ اور یہ شکوہ کچھ ایسا
غلط بھی نہیں ہے کہ خان کے لئے وہ کام بھی کئے گئے جو باقی کسی کے لئے نہیں ہوئے۔
کارکے ہو یا ریکوڈیک، این سی او سی ہو یا لوکسٹ، الیکشن ہو یا کوئی بل، نمبر پورے
کرنے ہوں یا کسی کو چپ کروانا، مقتدر حلقے ہمیشہ خان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔
مسئلے
بڑھتے گئے کیونکہ خان کی پاپولیرٹی گرتی جا رہی تھی۔ بزدار سے پنجاب نہیں سنبھل
رہا تھا، اتحادی خوش نہیں تھے لیکن مجبور تھے۔ پھر میاں صاحب نے نام لے کر گالیاں
شروع کیں، مولانا نے چیخ چنگھاڑ میں حصہ ڈالا، امریکا بہادر نے بھی ناراضگی ظاہر
کرنا شروع کر دی، میاں صاحب نے لندن کی دوائی کا فائدہ اٹھا کے ملنا جلنا شروع کیا۔
اور خان، اپنی سادگی میں، کبھی پرنس کو ناراض کرتا، کبھی کنگ کو، کبھی ترین کو اور
کبھی علیم کو، کبھی اتحادیوں کو اور کبھی ان کو لانے والوں کو۔
اندر
سے آوازیں بڑھنا شروع ہو گئیں کہ سر یہ تھا نیا پاکستان؟ یہ تھی تبدیلی؟ اوپر سے
خان صاحب کی لیڈری کم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ کبھی رشین بلاک کی بات کرتا کبھی اگلے چیف
کی۔ انہیں سمجھایا گیا کے سر، روس، چین نہیں ہے! ہم ایران نہیں ہیں نہ ہی انڈیا!۔
پہلے اپنا گھر ٹھیک کر لیں، لیکن خان کو کون سمجھا سکتا ہے!
جب
مقتدرہ کو لگا کہ خان سمجھ نہیں سکتا، اچھے کام کا کریڈٹ خود لیتا ہے اور گالیاں
ہم کھاتے ہیں تو انہوں نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جن بیساکھیوں پہ خان صاحب
تھے، وہ کھینچ لیں اور کہا کے چار قدم خود چل کر دیکھیں۔ چلنا کیا تھا، خان صاحب
کھڑے بھی نہ رہ سکے، دھڑام سے گرے۔ غرور اتنا تھا کے جھکے نہیں،اکڑ گئے۔ لیکن!!!
اور
اسی لیکن کے بعد اصل بات ہے!!
لیکن
ہوا یہ کہ کبے کو لات راس آگئی! خان کی سادگی، بے بسی، لڑنے اور ڈٹ جانے کی قوت،
ٹھیک نیت اور کام کی لگن، باطل کے سامنے کھڑے ہونے کی سکت، انجام سے بے پرواہی،
خلوص، انکار، للکار، خودداری، غیرت یا جو کچھ بھی تھا وہ عوام کو بھا گیا۔ اور عام
عوام بھی نہیں، پڑھی لکھی عوام، نوجوان،
خواتین، بزرگ، گلی محلے والے، کوٹھیوں والے غرض ہر کوئی۔ اور اب؟
اب جو کرتے ہیں الٹا پڑتا ہے۔ جو مرضی کرو، بات بنتی نہیں ہے!!
خان
آج بھی مقتدر حلقوں کی چوائس نہیں ہے!
لیکن
کیا مقتدرہ عوام کے خلاف جا سکتی ہے؟ کیا عوام کے وسیع تر مفاد میں مشرف سے جان
چھڑوانے والے، عوام کی نبض پڑھنے والے جنکی اصل طاقت ہی عوام کی سپورٹ ہے، عوامی
جذبات کے خلاف جا سکتے؟ اور اگر جائیں بھی تو آخر کب تک؟ کیا انہوں نے 6 ماہ کا
سوچنا ہے صرف؟ نہیں حضور! بلکہ اس کے بعد کا!
کیا
ایک اپائنٹمنٹ تک محدود ہو چکے ہیں وہ؟ دل نہیں مانتا!
کیا
یہ 77 ہے؟ کیا خان بھٹو ہے؟ اور اگر ہو بھی تو، کیا کوئی ضیاء بننا چاہے گا؟ کیا
پاکستان اسکا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستان، خان کو کھو سکتا ہے؟ کیا ملک کسی اور
سانحے کا بوجھ سہہ سکتا ہے؟
جی
نہیں حضور!!! جی نہیں!!!
An Open Letter to General Bajwa sb
جنرل باجوہ صاحب
السلام علیکم سر!
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ سر کہتے ہیں طاقت کا نشہ سب سے برا ہوتا ہے۔ یہ انسان کو سامنے کی بات بھی نہیں دیکھنے دیتا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ آپ دیکھ سکیں گے جو آپ کو دکھانے لگے ہیں۔ سر پاکستان کی کل آبادی کا 65 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان نا تو Uninformed ہیں نا ہی کوئی Bots اور یہ Beggars بھی نہیں ہیں۔
سر یہ نوجوان ملک کا مستقبل ہیں اور آج آزمائے ہوئے چوروں اور لٹیروں کے پے رول پر موجود صحافی و دانشور انہیں فاشسٹ کہہ رہے ہیں، انہیں گالیاں دے رہے ہیں۔ کل جب ملک پر کوئی مشکل وقت ہو گا تو یہ صحافی نہیں بلکہ یہ نوجوان پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
سر یہ ملک، یہ فوج، یہ معیشت جس تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس پر چلتی ہے، جن کے فارن ایکسچینج پر چلتی ہے وہ سب دن دہاڑے اور رات گئے اپنے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈلتے دیکھ کر شدید مضطرب ہیں۔ معاملات اس مقام پر نا جانے دیں جہاں یہ سسٹم سے مایوس ہو جائیں۔ سر خدانخواسطہ اگر یہ نوجوان سسٹم سے مایوس ہو گئے تو خاکم بدہن آپ اس سے پہلے ملک کو پیش آنے والے تمام چیلنجز کو بھول جائیں گے۔ ماضی کے تمام مسائل اور مصائب چھوٹے لگنے لگیں گے۔ اگر آپ پاکستان اور فوج سے محبت کرتے ہیں جو میرا خیال ہے آپ کرتے ہیں تو بڑھیں اور معاملات سنبھالیں۔
ہم ہرگز یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ عمران خان کو اقتدار میں لے آئیں۔ یہ فیصلہ عوام ہی کریں گے۔ ہم صرف یہ عرض کر رہے ہیں کہ اس قوم کے اجتماعی شور کی توہین نا کی جائے رات گئے عدالتیں کھول کر، ہمارے وزیراعظم کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اور ضمیرفروشی کر کے۔ سر یہ دیکھنے کے لیے کوئی آئین سٹائن ہونا ضروری نہیں کہ تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے پر کیسے عدلیہ ایکٹو ہوئی اور فلور کراسنگ پر ٹال مٹول سے کام لیتی رہی تا کہ حکومت گر سکے۔ الیکشن کمیشن کیسے صرف تحریک انصاف کی فنڈنگ کے پیچھے پڑا ہے ہمیں نظر آ رہا ہے۔
جناب ایک ہوٹل میں ایک بزرگ شہری کو مار پیٹ کر بکاؤ صحافیوں کے ہاتھ اسے "یوتھیا" کہا گیا۔ پھر پاک فوج کے ایک سرونگ میجر کو مار مار کر اس کا بازو توڑ دیا گیا۔ جناب عوام کے آپ سے دور ہونے کی دیر ہے، یہ کرپٹ سیاستدان آپ کو پنجاب پولیس بنانے میں دیر نہیں کریں گے!
اللہ کے بعد اس ملک میں ہر طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ فوج جتنی مرضی طاقتور ہو اگر عوام اس کے ساتھ نا ہوں تو وہ طاقتور نہیں رہتی۔ سر زرا سوچیں کہ جس قوم اور فوج نے مارشل لا بھگتے، بھٹو کی پھانسی بھگتی، آج اس کے جوان اور فوجی یکساں پریشان اور بے چین کیوں ہیں؟ ہمیں اپنی فوج کے ڈسپلن اور یونٹی آف کمانڈ پر ناز ہے۔ خدا کا واسطہ ہے کہ یہ ناز قائم رہنے دیں۔ بلوچستان، فاٹا وغیرہ میں پہلے ہی حالات ٹھیک نہیں ہیں، ہم اچھے بھلے بنے بنائے ملک کو تباہ کرنے پر کیوں تلے ہیں؟
ہم عام پاکستانی یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہماری عدلیہ اور ہماری فوج حالات کی سنگینی کا اندازہ لگا کے وہی کرے گی جو کسی بھی محب وطن پاکستانی کو کرنا چاہیے۔ فوری اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد! اس کے سوا جو کچھ بھی آپ کریں گے وہ محض مزید نقصان کے بعد پھر الیکشن پر ہی منتج ہو گا۔
پاکستان اور پاک فوج دونوں ہمارا غرور تھے اور ہیں۔ براہ مہربانی اس ملک کی روح، اس ملک کے نوجوان کا جذبہ اور امید قتل نا ہونے دیں۔ پاکستان زندہ باد
نصرت الٰہی۔ فراز نقوی
خدا کی قسم یہ نصرت الٰہی نہیں تو اور کیا ہے!!!
اس ایک شخص کو سب مل کے گرانے چلے تھے، تیاری پوری تھی، شکنجہ بھی کس لیا تھا۔ مقتدر حلقے بھی زچ تھے، بڑا گھر بھی آن بورڈ تھا، باہر سے بھی آشیرباد حاصل تھی، سروے چیخ چیخ کے غیر مقبولیت کا پتہ دے رہے تھے۔ کوئی کہتا بزدار کیوں لگایا!!
کوئی کہتا جہانگیر کو علیم کو ناراض کر دیا، کوئی کہتا فیض پہ ضد کی، اب اسکی خیر نہیں۔
کوئی ڈالر، تیل، مہنگائی، بجلی کی دہائی دیتا۔
وہ ان سب سے بے پروا!
ازل کا سادہ درویش!
لگا رہا اپنے کام میں۔
کہیں لنگر خانے کھولتا کہیں پناہگاہ۔ کبھی کرونا سے لڑتا کبھی لاک ڈاؤن کے خلاف۔
کبھی تیل پہ ٹیکس ختم کرتا، کبھی بجلی پہ، کبھی صحت کارڈ دیتا کبھی احساس کیش، کہ غریب کا چولہا جلتا رہے۔
کبھی IMF جاتا!
کبھی عربوں کے در جھکتا!
کبھی ٹیکسٹائل کو پیکج دیتا کبھی کنسٹرکشن کو، کہ پہیہ چلتا رہے۔ ایکسپورٹس کی بات کرتا،
کبھی ٹیکس کولیکشن کی،
کبھی خودداری کی بات کرتا،
کبھی خود انحصاری کی۔
قوم کی تربیت کرتا کہ کرپشن سے جان چھڑا لو! اپنے ملک کا سوچو!
ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہ ملک عظیم بنے گا، میری قوم عظیم ہے!
کیسا کیسا وقت آیا اور وہ ڈٹ گیا، جہاز آئے تو ملک کے لئے ڈٹ کے کھڑا ہو گیا، کہتا تھا! جواب دینے کا سوچوں گا نہیں، جواب دوں گا!
اور دیا!
اور ایسا دیا کہ چشم فلک نے ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔
اس قوم نے ایسا عروج نہیں دیکھا تھا۔
دشمن، طیارے، پائلٹ!
سب الٹ پلٹ دیئے۔ فوج کو بھی فخر ہوا کہ کوئی ہے جو ڈٹ سکتا ہے۔
پھر امریکہ آیا! افغانستان سے نکلتے ہوئے، ہاری ہوئی جنگ کا ملبہ ہم پہ ڈالتے،
اڈوں کا متمنی کہ جنگ جاری رکھے۔ڈٹ گیا! کہتا نہیں دوں گا!
ایسا جواب، امریکہ کو؟
جس نے بھی دیا، قتل ہوا یا اپنوں کے ہاتھوں پھانسی!
لیکن وہ ڈٹ گیا، نتائج سے بے پرواہ!
محمد کا دیوانہ، مدینہ ننگے پاؤں جانے والا، حرمت رسول پہ پوری دنیا سے ٹکر لینے والا، اسلاموفوبیا سے لڑنے والا۔ ڈٹ گیا!!
سمجھا کہ قوم میرے ساتھ ہے!
وہ سمجھا فوج میرے ساتھ ہے! سادہ اتنا کہ اگست 21 میں چیف کو کہہ دیا کہ اگلا چیف فلاں کو بنائیں گے۔ وہ تو مل کے ملک ٹھیک کر رہا تھا!
جانتا نہیں تھا کہ سب اس کی طرح مخلص نہیں ہیں۔ لوگوں کے اپنے مفادات ہیں، اپنے مسائل ہیں۔ پریشر آتا ہے تو سب اسکی طرح 'ابسولوٹلی ناٹ' نہیں کہہ سکتے۔
سازش ہوتے دیکھتا رہا، کہتا رہا کہ سازش ہو رہی ہے۔ ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ اسپیکر کو کہا، اپوزیشن کو کہا، سپریم کورٹ کو کہا، نیشنل سیکیورٹی کونسل کو کہا، کسی نے نہیں سنا تو عوام کو کہا۔
کسی نے مذاق اڑایا، کسی نے دھمکی دی، عدالتیں کھل گئیں، گدھ اکٹھے ہو گئے، بے بس ہو گیا، گھر گیا۔
ہر طرف سے گھر گیا، کوئی قانونی راستہ نہ بچا تو اٹھا، پوچھا:
"کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہوا ہو؟"
اپنی کل متاع، ایک ڈائری اٹھائی، اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا بنی گالہ چلا گیا۔
چلا گیاا لیکن ایسی جوت جگا گیا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی، ایسی آگ لگا گیا تن میں جو بجھ نہیں رہی۔
پھر میرے رب نے دن پھیر دیئے، دل پھیر دیئے!
سازشی اکٹھے تھے، پلان مضبوط تھا، عہدے بٹے ہوئے تھے، فیصلے ہو چکے تھے۔ لیکن رب کی منظوری نہیں تھی!
ایسی کایا پلٹی کہ سوئی ہوئی قوم جاگ گئی۔
جو کبھی نہیں جاگی تھی، ماڈل ٹاؤن ہو یا 71، اے پی ایس ہو یا بھٹو کی پھانسی، جو کبھی نہیں جاگی!
نجانے اب کیسے جاگ گئی؟
اب جو کرتے ہیں الٹا پڑتا ہے!
تیل بڑھاؤ یا کم کرو، ڈالر اوپر یا نیچے کرو، مہنگائی کم یا زیادہ کرو، جسے بھی وزارت دو، جو عہدہ بھی جسے دو، حلف میں شرکت کرو یا نہیں، ملو یا نہیں، سیلوٹ کرو یا نہیں، ساری پارٹیاں اکٹھی کر لی، سارا میڈیا خرید لیا، ڈالر بھی لے آئے۔
مبارکباد کے پیغامات بھی آ گئے، دوروں کی دعوتیں بھی، پراجیکٹ بھی،
لیکن! جو مرضی کرو، بات بنتی نہیں ہے،
عوام کو جچتی نہیں ہے، ٹرینڈ نیچے نہیں آ رہے، عوام گھر نہیں بیٹھ رہی، افسر بات نہیں سن رہے، ریٹائرڈ بھی چپ نہیں کر رہے، سمجھ نہیں آرہی یہ کیا ہے؟
یہ نصرت الٰہی نہیں تو اور کیا ہے!!
On Uniform Education System یکساں نظام تعلیم
This is perhaps my first article which I'm writing in both English and Urdu simultaneously. The reason for that is simple: Those who matter hardly read Urdu and those affected rarely understand English. So, I want to take a chance to be read by both sections.
جسٹس قاضی فائز کے بارے میں - About Justice Faiz Qazi
مجھے یاد ہے افتخار چوہدری صاحب"عدلیہ کی آزادی"کی مہم کی قیادت کر رہے تھے اور اعتزاز احسن"ریاست ہو گی ماں کے جیسے" گا رہے تھے، فدوی تب عرض کر رہا تھا کہ یہ ایک غلط آدمی ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ فدوی کی وہ رائے درست تھی اگرچہ دلی ہمدردیاں اس تحریک میں میری بھی ججز کے ساتھ تھیں۔ مشرف کو میں تب بھی غاصب سمجھتا تھا۔ لیکن افتخار چوہدری کا رویہ اور طریقہ کار سائرن بجاتا رہتا تھا۔ خیر بعد میں پورے پاکستان نے دیکھا کہ وہ کیسا المناک سراب ثابت ہوئے، آج جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کے بارے میں بھی میرے لئے نہایت محترم شخصیات نہایت مثبت آراء رکھتی ہیں اور میری ذاتی خواہش ہے کہ میں ان سے اتفاق کروں لیکن مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ایسا کرنے سے خود کو معذور پاتا ہوں:
ایک- جج صاحب کی اپیل کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل (چاہے وہ انسانیت کی ارزل ترین شکل پر ہی کیوں نا ہو) پر ان کے ذاتی اور جذباتی حملے ان کے عہدے اور مقام کے شایان شان نہیں تھے
دو- انٹرنیٹ سے کسی شخص کی مبینہ جائداد کا تقابل اپنی تسلیم شدہ جائداد سے کرنا ہرگز کوئی منطقی و مسکت قانونی رویہ نہیں تھا
تین- قانون میں میرے لئے ایک طرح سے استاد کی حیثیت رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صاحب کی جسٹس صاحب کے بارے میں انتہائی مثبت رائے رکھنے کے باوجود میرے لئے آج بھی یہ ہضم کرنا مشکل ہے کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ میرٹ پر تھا یا اس میں نواز شریف خاندان کو بے انتہا ناجائز قانونی فائدہ نہیں پہنچایا گیا
چار- افتخار چوہدری صاحب کی ذاتی درخواست پر ان کا جج بننا میری ناقص رائے میں ان کا کوئی میرٹ نہیں بلکہ ڈی میرٹ ہے
پانچ- میں یہ بھی نہیں کہتا کہ جج صاحب چور ہیں یا کرپٹ ہیں۔ میرے خیال میں یہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس بچانے کا کیس نکلے گا (جو قانون کی نظر میں جرم ہی ہے لیکن پاکستان کے کاروباری طبقے میں اسے عام روٹین سمجھا جاتا ہے)۔ اور شائد اسی وجہ سے جسٹس صاحب نے حدیبیہ و دوسرے کیسز میں وہ تمام کمنٹس دیئے جو بعد میں ان کے کیس کے ساتھ بھی خاصی حد تک مطابقت رکھتے تھے
چھ- جج صاحب کا ایک اور ذہنی و نفسیاتی رویہ خبط عظمت میں مبتلا ہونے کا ہے۔ یہ رویہ میں نے آج تک جس میں بھی دیکھا ہے وہ کوئی مثبت شخصیت نہیں نکلی۔ چاہے وہ وقاص گورایا ہو یا سلمان حیدر یا ماروی سرمد یا گل بخاری یا افتخار چوہدری یا جسٹس شوکت صدیقی وغیرہ وغیرہ۔ قاضی صاحب کا رویہ، عمل اور طرز عمل سب نہایت جذباتی اور مخاصمانہ رہے ہیں۔ کل ہو سکتا ہے وہ چیف جسٹس بھی بنیں تو ایسے رویے کے اظہار کے ساتھ وہ اپنی منصفی کے تقاضوں پر پورا اتر سکیں گے؟ فدوی بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں پاتا ہے
سات- جج صاحب یا ان کی اہلیہ محترمہ دونوں نے جذباتی بیانات تو خوب دیے ہیں مگر سات لاکھ پاؤنڈ ایک خطیر رقم ہے۔ یہ گلے یا گُجے یا گھڑے میں نہیں جوڑی گئی ہو گی۔ جج صاحب کی اہلیہ خود کہہ چکی ہیں کہ وہ میرے اپنے وسائل سے حاصل کردہ رقم تھی۔ مطلب جج صاحب کی لا فرم کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اور بیگم صاحبہ کا کوئی کاروبار نہیں تھا۔ تو لازمی یہ رقم کسی فائنانشل ٹرانزیکشن کے نتیجے میں آئی ہو گی۔ بیگم صاحبہ نے تمام دستاویزات دکھا دیں یہی ایک دستاویز نہیں دکھائی۔ اشارتاً بھی اس کے بارے میں بات نہیں کی۔ حالانکہ پورے کیس کی جڑ ہی ان منی ٹرانزیکشنس کی منی ٹریل ہے اور تو کیس کچھ ہے ہی نہیں
آخری بات یہ ہے کہ جج صاحب کے فوج کے خلاف کھڑے ہونے پر انہیں کھڑے ہو کر سات سرخ سلام۔ اگر وہ واضح اور صاف منی ٹریل بھی پیش کر دیں جذباتی ڈائیلاگز کی بجائے تو پوری قوم انہیں چودہ سرخ سلام پیش کرے گی۔ بصورت دیگر ایک اور افتخار چوہدری اس بدقسمت قوم کی زندگی میں آنے والا ہے- پیشگی لکھ کے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا تا کہ مستقبل میں اپنے محترم دوستوں کو اس کا حوالہ دیا جا سکے جیسے آج بھی افتخار چوہدری کے بارے میں میری آراء اپنے کالج کی المنائی کے یاہو گروپ پر موجود ہیں جو فدوی نے 2007-8 میں دی تھیں
MQM and PTI
ایم کیو ایم اور تحریک انصاف
میرے ایک دوست نے مندرجہ ذیل نکتے اٹھائے ہیں، پلیز کوئی بھائی مجھے ان کا نکتہ وار جواب دیں تا کہ میں اس کے منہ پر مار سکوں- وہ ہر وقت کوشش کرتا رہتا ہے نون لیگ اور باقی جماعتوں کو غلط اور صرف تحریک انصاف کو درست ثابت کرنے کی، شکریہ
ان لوگوں کے لئے جو ایم کیو ایم کی ہڑتالوں کا
تحریک انصاف کی ہڑتالوں سے تقابل کر رہے ہیں
- ایم کیو ایم نے کتنی بار ہڑتال کرنے سے پہلے ڈیڑھ سال تک
عدالتی نظام سے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی؟
- ایم کیو ایم نے ہڑتال کرنے سے پہلے کتنی بار انصاف کی تلاش
میں سو دن کا دھرنا دیا ہے؟
- ایم کیو ایم نے ہڑتال کرنے سے پہلے کتنی بار ملکی سطح پر
تقریبا ہر چھوٹے بڑے شہر میں تاریخ کے سب سے بڑے جلسے کیئے ہیں انصاف کے لئے؟
- ایم کیو ایم کے قائد نے کتنی بار عوام سے محض "ایک
دن" کے کچھ گھنٹوں کی ہڑتال کے لئے معذرت کی ہے؟
- ایم کیو ایم کی ہڑتال آج تک کتنی بار بغیر کسی قتل و غارت
اور لاشیں گراۓ بغیر سو فیصد پرامن انداز میں ختم ہوئی ہے؟
- ایم کیو ایم نے آج تک کتنی بار دھاندلی جیسے قومی مسلے پر
ہڑتال کی ہے؟
- یاد رہے دھاندلی تحریک انصاف کا ایشو نہیں پاکستان کا ایشو
ہے- جمہوریت میں لٹیروں کو سزا دینے کا واحد پرامن طریقہ الیکشن ہیں اور اگر وہی
صاف و شفاف نا ہوں تو جمہوریت ختم ہو جاتی ہے-
- وہ لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کی دھاندلی کے بارے
میں بات کیوں نہیں کی وہ اپنے تعصب میں یہ بھول رہے ہیں کہ جب بھی دھاندلی کی
انکوائری شروع ہوئی تو وہ صرف پنجاب یا نون لیگ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ وہ
سندھ، کراچی، کے پی کے اور بلوچستان میں بھی ہو گی- اس لئے اس اعتراض کی کوئی
منطقی وقعت باقی نہیں رہتی- یہ تحریک انصاف کی تزویراتی چال تو کہلائی جا سکتی ہے
مگر اس کی وجہ سے آپ کوئی الزام تراشی نہیں کر سکتے
- اسی مشترکہ خطرے کی وجہ سے تمام جماعتیں سسٹم اور جمہوریت
بچانے کے نام پر متحد ہو گئی ہیں تا کہ سٹیٹس کو نا ٹوٹ سکے- ایک بات اور یاد رہے
کہ دھاندلی ہمیشہ وہ جماعتیں کروا سکتی ہیں جو الیکشن سے پہلے حکومت کر چکی ہوں،
ہر ادارے میں اپنے بندے گھسا چکی ہوں، جو جماعتیں حکومت میں نا ہوں ان کے خلاف
دھاندلی ہوا کرتی ہے اور اگر وہ اس کے باوجود جیت جائیں تو وہ اپنے خلاف ہونے والی
دھاندلی کے باوجود الیکشن جیتتی ہیں- گزشتہ انتخابات میں ایسی جماعتوں کی مثالیں
کے پی کے میں تحریک انصاف کی سیٹیں ہیں
- الطاف بھائی کی مجبوری تھی کہ معاملات پرتشدد رخ اختیار نا
کریں کیونکہ انکو یاد تھا کہ گیارہ مئی کو ہونے والے احتجاج کے بعد لندن بھی ان کے
لئے محفوظ نہیں رہا تھا- تحریک انصاف کے بیرون ملک موجود پڑھے لکھے سپورٹرز نے
لندن میٹرو پولیس میں کالز کر کر کے جو حشر کیا تھا وہ ابھی بھولے نہیں ہوں گے
بھائی صاحب
-ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر کراچی میں کوئی بھی جلسہ یا
ہڑتال بھائی کی آشیرباد کے ساتھ ہوتی ہے تو پھر لاڑکانہ کا جلسہ پیپلز پارٹی،
لاہور، فیصل آباد اور گجرانوالہ وغیرہ کے جلسے نون لیگ کی آشیر باد اور مولانا فضل
الرحمن کے سگے بھائی اور بیٹے کا اپنی آبائی سیٹ ہار جانا مولانا فضل الرحمن کی
آشیر باد اور میاں صاب کا ہزارہ میں ہونے والا جلسہ تحریک انصاف کی آشیر باد اور
جماعت اسلامی کا کراچی میں گزشتہ اور آئندہ ہونے والا جلسہ ایم کیو ایم کی ہی
آشیرباد کے ساتھ ہو گا
- آخری نکتہ یہ ہے کہ کیا عوام نے ایم کیو ایم کی ہڑتالوں کے
دوران لاشیں اور تحریک انصاف کی خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر ہڑتال میں فرق محسوس نہیں کیا ہو گا؟ اس کا دور رس
اور حقیقی فائدہ ایم کیو ایم کا ہو گا یا تحریک انصاف کا؟ گزشتہ انتخابات میں تمام
تر زور، زبردستی اور جبر کے باوجود کراچی کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف بن کر
ابھری ہے- کیا ایم کیو ایم کبھی بھی اپنے وجود کی ضامن انتخابی مناپلی کو برضا و
خوشی خطرے میں ڈالے گی؟
Summary of ECP Report
Imran Khan Statement Against Altaf Hussain
PTI Par Tanqeed ki Tafseel
Total Pageviews
Popular Posts
-
جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کے بارے میں چند پیشگی معروضات مجھے یاد ہے افتخار چوہدری صاحب "عدلیہ کی آزادی" کی مہم کی قیادت کر رہے تھے ...
-
We mostly keep on criticizing everyone. Or we keep on spreading rhetoric without even understanding what are we saying. I am going to try s...
-
I know many so called realists and pseudo-intellectuals will still ridicule him but it is perfectly natural and normal :) Writte...